عمران کامیانہ
پاکستانی سرمایہ داری کا بحران مسلسل شدت اختیار کر رہا ہے۔ 27 اگست کو وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال (مالی سال 2018-19ء) کے دوران بجٹ خسارہ حکومتی ہدف سے 82 فیصد زیادہ رہا۔ 3.44 ہزار ارب روپے کا یہ خسارہ جی ڈی پی کا 8.9 فیصد بنتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ گزشتہ 30 سالوں کا بلند ترین خسارہ ہے۔ جبکہ مطلق رقم کے اعتبار سے یہ ملکی تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہے جس نے 2.3 ہزار ارب کا ریکارڈ توڑا ہے۔
اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال کا بجٹ خسارہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ حکومتوں کے آخری سالوں کے بجٹ خساروں سے بڑھ کر ہے۔ حالانکہ حکومتیں اپنے آخری سالوں میں انتخابی حاصلات کے لئے بالعموم بے دریغ خرچ کرتی ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کے آخری سال کا خسارہ جی ڈی پی کے 8.2 فیصد جبکہ نواز لیگ حکومت کے آخری سال کا خسارہ جی ڈی پی کے 6.6 فیصد کے مساوی تھا۔
گزشتہ مالی سال حکومت کے اخراجات میں 20 فیصد اضافہ ہوا جبکہ آمدن میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی۔ واضح رہے کہ کُل حکومتی آمدن کا 80 فیصد (3.23 ہزار ارب روپے) صرف دفاع اور پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کی نذر ہوتا رہا۔ وفاقی آمدن میں سے صوبوں کا حصہ نکالنے کے بعد مذکورہ بالا دو مدوں کے اخراجات حکومتی آمدن کا 159 فیصد بنتے ہیں۔
اتنے بڑے خسارے نے بجٹ 2019-20ء کو بھی اسمبلی سے منظور ہونے کے صرف دو ماہ بعد بے معنی بنا کے رکھ دیا ہے۔ عین ممکن ہے آنے والے دنوں میں گزشتہ مالی سال کی طرح حکومت کو مزید منی بجٹ پیش کرنے پڑیں جن میں عوام پر مزید ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔
اتنے بڑے مالیاتی خسارے نے قرضوں کو بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اپنی گزشتہ رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ پچھلے صرف ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 7.6 ہزار ارب روپے (31.3 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد مجموعی حکومتی قرضہ 31 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ اس ایک سال کے دوران قرضوں میں ہونے والا اضافہ مسلم لیگ (ن) کے سارے دورِ حکومت میں لیے گئے مجموعی قرضے کے 71 فیصد کے مساوی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی حکومت نے قرضوں میں اتنا اضافہ اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران بھی نہیں کیا تھا۔
لیکن بات صرف قرضے پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ واجبات کو شامل کیا جائے تو یہ بوجھ 40.2 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو ملک کے جی ڈی پی کا 104.3 فیصد بن جاتا ہے۔ یعنی قرضے اور واجبات دستاویزی معیشت کے مجموعی ہجم سے تجاوز کر چکے ہیں۔
تقریباً 31 ہزار ارب روپے کے قرضوں میں 34.5 فیصد بیرونی قرضہ ہے جبکہ 65.5 فیصد اندرونی قرضہ ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات اور اکنامک ایڈوائزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ”انھیں حکومت سنبھالنے کے بعد پتا چلا کہ حالات ان کی توقعات سے کہیں زیادہ خراب ہیں… موجودہ معاشی صورتحال کی سب سے بڑی وجہ حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا۔ اس نہج تک پہنچانے میں جتنی حکومت ذمہ دار ہے اتنا ہی ذمہ دار آئی ایم ایف بھی ہے۔“
جی ڈی پی کی شرح نمو 2018ء میں 5.8 فیصد سے کم ہوتے ہوتے جاری مالی سال کے دوران صرف 2.4 فیصد رہ جانے کا امکان ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے قطع نظر معیشت درحقیقت نمو کی بجائے سکڑاؤ کا شکار ہے جس کے بلند افراطِ زر کے ساتھ امتزاج نے صورتحال کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔ مہنگائی کی شرح اس وقت 10 فیصد کے آس پاس منڈلا رہی ہے جس کے 15 فیصد تک چلے جانے کے امکانات ہیں۔ جبکہ شرح سود بھی وسط 2018ء میں 6.50 فیصد سے بڑھتے بڑھتے اس وقت 13.25 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ابھی اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ اتنی بلند شرح سود سے جہاں سرمایہ کاری سکڑ رہی ہے وہاں حکومت پر قرضوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا اعداد و شمار سے واضح ہے۔ تاہم نجی بینک خوب مال بنا رہے ہیں۔
صرف روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ڈالروں میں جی ڈی پی 33 ارب ڈالر کم ہو گیا ہے اور قرضوں میں 4400 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں صرف 4 ارب ڈالر کی کمی آئی ہے اور یہ خسارہ ابھی بھی 13 ارب ڈالر کی سطح پہ کھڑا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں بھی 61 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس سے بیرونی فنانسنگ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
یہ کیفیت نہ صرف سرکاری پالیسی سازوں کے کنٹرول سے باہر ہے بلکہ آئی ایم ایف کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے آئی ایم ایف کیساتھ نئے سرے سے مذاکرات کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
سارے بحران کا بوجھ مسلسل عوام پر لادا جا رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں اور خطِ غربت سے نیچے گر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایک دھماکہ خیز انداز سے پھٹ بھی سکتی ہے جس سے حکمران بری طرح خوفزدہ نظر آتے ہیں۔
پاکستانی سرمایہ داری کے معروضی بحران کو موجودہ مسلط کردہ سیٹ اپ کے موضوعی بحران نے کہیں زیادہ شدید کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ کیفیت میں معیشت اب ایک مکمل انہدام کی طرف گامزن ہے۔ اس لئے لڑکھڑاتی معاشی بنیادوں پہ کھڑا سارا سیاسی اور سرکاری ڈھانچہ بھی لرز رہا ہے۔ چہ مگوئیوں کا بازار خوب گرم ہے۔ موجودہ سیٹ اپ کے جاری رہنے کے امکانات بہرصورت مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔