خبریں/تبصرے

ایران میں عورت انقلاب

لاہور (جدوجہد رپورٹ) 16 ستمبر کو نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد ابتدائی طورپر ایران کے کرد علاقے میں احتجاج شروع ہوئے۔ تاہم یہ احتجاج جلد ہی ملک بھر میں پھیل گئے۔ مہسا امینی اب ایرانی خواتین میں بغاوت کی علامت بن چکی ہیں۔

’گارڈین‘ کے مطابق ملک کے بیشتر صوبوں کی سڑکوں پر مظاہرین ریاستی افواج کے سامنے مزاحمت کر رہے ہیں۔ ابتدا میں حکمران رہنماؤں کا خیال تھا کہ کچھ کرد علاقوں میں قوم پرست بغاوت ہو سکتی ہے۔ تاہم اب ملک بھر میں مہسا امینی کی موت کے بعد آبادی کی اکثریت سراپا احتجاج نظر آتی ہے۔

کرمانشاہ کے کرد شہر سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ روزین کا کہنا ہے کہ ’یہ ایرانی انقلاب، یا کرد انقلاب نہیں، یہ خواتین کا انقلاب ہے۔‘

خواتین کے بارے میں ایرانی ریاست کے موقف کے خلاف مظاہرے ایران کے بہت سے حصوں میں ختم یا محدود ہونے کے آثار بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ ریاستی جبر کا شکار خواتین خاص طور پر آواز بلند کر رہی ہیں، جنہوں نے آیت اللہ علی خامنہ ای اور مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑ دیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کا چند ماہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، تاہم اب کرد، فارسی اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بغیر حجاب کے سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔

بوکان کے قصبے سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ کریم کا کہنا ہے کہ ’اب یہ کرد تحریک نہیں، نہ فارسیوں کی تحریک ہے، یہ تقریباً 85 ملین انسان ہیں، جو سماجی، معاشی اور زندگی کے ہر پہلو میں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل ایران کے دارالحکومت میں ایک کرد لڑکی اجنبی تھی اور اب اس کا چہرہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ قومی تحریک بھی نہیں ہے، یہ اس سے آگے ہے۔ یہ خواتین کے بارے میں ہے اور یہ ہمارے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں ہے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہر فرد بنیادی مقاصد اور مسائل کو حل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے، لیکن میں اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ ایک سال کے بعد کردوں کے پاس فارسیوں کے بارے میں سوچنے کا کوئی دوسرا طریقہ ہے۔‘

ایران میں کرد ملک کی آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہیں اور مشرق وسطیٰ میں کردوں کی موجودگی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہیں، جو مغربی اور مشرقی ایران، شمالی عراق، شمالی شام اور جنوب مشرقی ترکی کے درمیان بکھرے ہوئے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد عثمانی سرحدوں کے ٹوٹنے کے ایک صدی بعد کوئی کرد ریاست نہیں ہے اور متعدد گروہ آبادیوں کے درمیان قائدانہ کردار کا دعویٰ کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں، جو ایک ٹوٹی پھوٹی آبادی رہ گئی ہے، جس کے وطن کی تلاش ابھی تک باقی ہے۔

پانچ سال قبل عراق کے کردوں نے ریاست کے حوالے سے ریفرنڈم کروایا تھا، جسے بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔ تاہم چند ہی دنوں میں عراق کی فوج، طاقتور ملیشیاؤں کی قیادت میں اور سلیمانی کی ہدایت پر کرکوک کے تیل کے شہر پر قبضہ کرنے اور 2003ء میں صدام حسین کی معزولی کے بعد کردوں کے زیر قبضہ زیادہ تر زمین پر قبضہ کرنے کیلئے شمال کی طرف بھیج دی گئی تھی۔

اس کے بعد سے عراق یا ایران میں کردوں کو تقویت دینے کے چند دیگر واقعات بھی ہوئے۔ یہاں تک کہ امینی کی ایران کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں موت بغاوت کا مرکز بند گئی اور کرد مرکزی حکومت سے الگ ہونے کی مثال کے طور پر کھڑے ہیں۔

مڈل ایسٹ کونسل برائے عالمی امور کے سینئر رکن رنج علاؤ الدین کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ مہسا امینی کی موت نے ایران میں موجود طویل عرصہ سے مظلوم کرد آبادی کے اندر انقلابی جوش کو جنم دیا ہے، لیکن مہسا کی سفاکانہ موت ایران میں کردوں کے مقصد سے کہیں زیادہ بڑی علامت بن چکی ہے، جو اسلامی جمہوریہ کے سیاسی اور نظریاتی نظام پر کاری ضرب لگا رہی ہے۔‘

انکا کہنا تھا کہ’اب مہسا کے نام کو حکومت کے دوسرے مخالفین بھی استعمال کرینگے۔ 1979ء کے بعد پہلی بار ایران میں کرد کاز دوسری مظلوم قومیتوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مستقبل قریب میں کردوں کے انسانی حقوق کیلئے اس کا کیا مطلب ہے، یہ دیکھنا باقی ہے۔ تاہم اگر حکومت اس بغاوت سے بچ جاتی ہے تو یہ کرد ہی ہیں جو اس کے پرتشدد رد عمل کا سب سے زیادہ شکار ہونگے۔“

روزین کا کہنا ہے کہ ’مظاہروں کے بعد کے نتائج پر فی الحال غور نہیں کیا جا رہا ہے۔ خواتین بہت سارے مسائل کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ لوگوں کو صرف حجاب کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ نظام حکومت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے اسلام کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ وہ بہت سے لوگوں کو مار رہے ہیں۔ وہ خواتین کے ایک ایک حق سے انکار کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں انتخاب کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ صرف حجاب کے مسئلے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ انتخاب کرنے کے ہمارے حق کے بارے میں ہے۔‘

تہران کی رہائشی ایک اور خاتون نے نام ظاہر نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مظاہروں نے ملک بھر کی خواتین کوچارج کر دیا ہے۔ یہ ان طریقوں سے ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں جانا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اگر ہم نہیں جیتتے، ہم پہلے ہی کئی طریقوں سے جیت چکے ہیں۔ ریاست اب ہمیں نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ہمارے موقف نے انہیں کمزور کر دیا ہے۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts