خبریں/تبصرے

یوکرین جنگ میں روس کی حمایت پر کویتا کرشنن کمیونسٹ پارٹی (لبریشن) کی قیادت سے دستبردار

لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارت کی معروف بائیں بازو کی رہنما کویتا کرشنن نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لبریشن (سی پی آئی ایم ایل) کی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔

’ڈیموکریسی ناؤ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے سی پی آئی ایم ایل کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ یوکرین جنگ میں پارٹی قیادت کی جانب سے روس کی حمایت کی وجہ سے لیا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ بھارت کے مختلف نظریاتی میدانوں میں جنگ اور روسی حملے کے بارے میں بہت سی غلط معلومات موجود ہیں۔ اسی وجہ سے یوکرین کی بجائے روس کیلئے بہت زیادہ ہمدردی بھی ہے۔ بھارتیوں اور بھارتی سیاسی جماعتوں کی اکثریت یوکرین کو نہیں دیکھتی، نہ یوکرین کو اس طرح تسلیم کرتی ہے۔ ان کے سوویت یونین کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں اور وہ یوکرین کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’بائیں بازو میں مجھے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ بہت زیادہ شدید ہے۔ بھارت میں ااپ کے پاس ایک فار رائٹ ہے جو نظریاتی طور پر پوٹن کے منصوبے سے جڑا ہوا ہے۔ دہلی کے وسط میں ہندو بالادستی پسند گروہوں کی طرف سے روس کے حملے کی حمایت میں پوسٹر لگائے گئے ہیں، جن پر لکھا ہے کہ پوٹن سوویت یونین کی تنظیم نو کرینگے۔ وہ روسی سلطنت کو دوبارہ ایک ساتھ کھڑا کر دینگے۔ جس طرح یہ ایک ہندوستانی سلطنت، ایک غیر منقسم ہندوستان بنانا چاہتے ہیں، جس میں بھارت اور اس کے تمام پڑوسی ہندوستان کے حصے کے طور پر شامل ہوں گے۔ یہ فار رائٹ پوزیشن ہے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’بائیں بازو کی جماعتیں سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کھلے عام پوٹن کی حمایت میں بات کرتی ہیں۔ وہ کھل کر روس اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے منتظر ہیں۔ جس پارٹی کو میں نے چھوڑا وہ سی پی آئی ایم ایل تھی، اس کا آفیشل موقف تو یہ ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ یکجہتی میں ہے۔ تاہم یہ کہنے کے بعد یہ پوٹن کے پروپیگنڈے کے بہت سے عناصر کو پھیلانے میں حصہ ڈال کر اس سب کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ یعنی یوکرین میں 2014ء میں ہونے والے احتجاج کو امریکی حمایت یافتہ بغاوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ سب سے اہم مسئلہ اس جملے میں ہے، جو سی پی آی ایم ایل کے جنرل سیکرٹری کی حالیہ تحریر میں شامل ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ’مقابلہ کرنے والی عالمی طاقتوں کے اندرونی کردار سے قطع نظر ایک کثیر قطبی دنیا یقینی طور پر ترقی پسند قوتوں اور تحریکوں کیلئے زیادہ فائدہ مند ہے۔ وغیرہ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو دنیا کے ان پولز کی حمایت کرنی چاہیے جو امریکہ کیلئے ایک چیلنج کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ امریکہ واحد ملک ہے جسے سامراج کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ کہ باقی تمام قطب چاہے وہ فاشسٹوں اور آمریتوں پر مشتمل ہوں، جیسے پوتن، مودی، بولسنارو وغیرہ کے لئے ہمیں نرم ہونا پڑے گا۔ ہمیں ان حکومتوں کے خلاف تحریکوں کیلئے اپنی یکجہتی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی یکجہتی کو بڑھانا چاہیے، کیونکہ ہمارا کام ہے کہ کسی طرح طاقت کے اس توازن کو برقرار رکھیں۔ لہٰذا مارکسزم کی اس قسم کی حقیقت پسندانہ بیان بازی اور میرے خیال میں حقیقت پسندانہ نظریاتی بدعنوانی ہے جو مجھے اس وقت بہت زیادہ پریشان کر رہی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts