خبریں/تبصرے

227 ایرانی اراکین پارلیمان مظاہرین کیلئے سخت سزاؤں کی حمایت میں

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایرانی قانون سازوں نے احتجاجی مظاہروں کے دوران مظاہرین کو اکسانے والوں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق سخت گیرانی ایرانی قانون سازوں نے اتوار کے روز عدلیہ پر زور دیا کہ وہ بدامنی پھیلانے والوں کے ساتھ فیصلہ کن طریقے سے نمٹے، کیونکہ ایرانی حکومت برسوں میں اختلاف رائے کے سب سے بڑے مظاہروں کو دبانے کیلئے تگ و دو کر رہی ہے۔

ستمبر میں نوجوان کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، جو ابھی تک جاری ہیں۔ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے خواتین پر عائد سخت لباس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی پر حراست میں لیا تھا، وہ دوران حراست ہی ہلاک ہو گئی تھیں۔

سرکاری میڈیا کے مطابق ایران کی 290 نشستوں پر مشتمل سخت گیر قیادت والی پارلیمنٹ کے 227 قانون سازوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم عدلیہ سے ان جرائم کے مرتکب افراد اور ان تمام لوگوں کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹنے کیلئے کہتے ہیں، جنہوں نے جرائم میں مدد کی اور فسادیوں کو اکسایا۔‘

گزشتہ ہفتے تک اس احتجاجی تحریک کے دوران 318 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 49 نابالغ بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس دوران 38 سکیورٹی فورسز اہلکاران بھی مارے گئے ہیں۔

سرکاری میڈیا نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ پولیس سمیت 46 سے زائد سکیورٹی فورسز اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ سرکاری عہدیداروں نے موت کی کسی وسیع تعداد کا تخمینہ فراہم نہیں کیا ہے۔

ایرانی رہنماؤں نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا عزم کیا ہے، جنہیں انہوں نے فسادی قرار دیا اور امریکہ سمیت دشمنی پر بدامنی کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

حقوق گروپوں اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز کے مطابق اتوار کو تہران سے مرکزی شہر یزد اور شمالی شہر رشت تک کئی شہروں میں مظاہرے جاری رہے۔ ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں جنوبی تہران میں مظاہرین کو رات کے وقت یہ نعرہ لگاتے ہوئے دکھای گیا کہ ’علما گم ہو گئے‘۔

کرد شہر ماریوان میں حقوق گروپ ہینگاؤ نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے ان لوگوں پر گولی چلائی جو ایک دوسری خاتون نسرین غدیری کی آخری رسومات کے بعد اس کی موت کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے۔

ہنگاؤ نے کہا کہ غدیری ہفتے کے روز تہران میں مظاہرے کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ان کے سر پر شدید چوٹیں لگنے کے بعد کوما میں رہنے کے بعد چل بسیں۔

سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ ویڈیوز کے مطابق ایک درجن یونیورسٹیوں کے طلبہ، بشمول شمالی شہروں رشت اور امول میں، اتوار کو ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts