لاہور (جدوجہد رپورٹ) امریکہ نے جنوب ایشیائی کی القاعدہ اور پاکستانی طالبان (تحریک طالبان پاکستان) رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے افغانستان میں کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق دہشت گرد قرار دیئے گئے عسکریت پسندوں میں القاعدہ برصغیر پاک و ہند، جو جہادی نیٹ ورک کی ایک علاقائی شاخ ہے، کے 4 رہنما شامل ہیں۔ تنظیم کے امیر اسامہ محمود کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
امریکہ نے ٹی ٹی پی کے سینئر رہنما مفتی حضرت ڈیروجی، جو قاری امجد کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، کو بھی دہشت گرد قرار دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے 15 سال سے جاری پرتشدد کارروائیوں میں گزشتہ سال افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد تیزی آ گئی ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مفتی حضرت ڈیرو جی خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے نگران تھے، جو کہ ملک میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار دو صوبوں میں سے ایک ہے۔
امریکی سیکرٹری سٹیٹ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ ان افراد کو دہشت گرد قرار دینا ہماری انتھک کوششوں کا حصہ ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گرد افغانستان کو عالمی دہشت گردی کیلئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس عزم کو برقرار اور جاری رکھنے کیلئے تمام متعلقہ وسائل استعمال کرینگے کہ عالمی دہشت گرد افغانستا ن میں کام کرنے کے قابل نہ ہوں۔‘
عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے کے بعد ان ملزمان کے ساتھ امریکہ میں کسی قسم کا لین دین کرنا جرم بن گیا ہے اور ملک میں موجود ان کے اثاثے منجمد کر دیئے جائیں گے۔
امریکہ نے 31 جولائی کو افغانستان میں 2 میزائل داغے تھے، جن میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری ہلاک ہو گئے تھے، جو حال ہی میں کابل میں منتقل ہوئے تھے۔
امریکہ نے طالبان پر الزام عائدکیا تھا کہ انہوں نے القاعدہ کو پناہ گاہیں فراہم نہ کرنے کی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی، یہی الزام 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان پر ابتدائی حملے کا محرک بھی تھا۔