نقطہ نظر

کشمیر کی واحد کامیاب سوشلسٹ کونسلر: ’عوام نے سیاسی اجارہ داری کو شکست دی‘

حارث قدیر

نوشین کنول ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ”عوام نے منفی پروپیگنڈے اور سیاسی اجارہ داری کو شکست دی۔ جو لوگ خواتین کے کردار کو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھنے کے داعی ہیں، انہوں نے ہر حد تک جانے کی کوشش کی۔ تاہم وارڈ کے لوگوں نے انتخابی منشور اور پروگرام کو کامیاب بنایا۔ خواتین کا کردار خصوصی طور پر قابل تعریف ہے۔“

نوشین کنول ایڈووکیٹ حال ہی میں میونسپل کارپوریشن راولاکوٹ کی وارڈ نمبر 22 سے بطور کونسلر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ اس خطے کی واحد ایسی خاتون امیدوار کے طورپر کامیاب ہوئی ہیں، جن کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں ہے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر کام کرنے والے چند سوشلسٹ رہنماؤں میں شمار ہوتی ہیں۔ ایک لمبے عرصہ سے انقلابی سوشلزم کے نظریات کے پھیلاؤ اور محنت کشوں اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے عمل میں شریک ہیں۔

گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے بلدیاتی انتخابات میں سب سے مشکل ترین قرار دیا جانے والا الیکشن جیتنے پر کیا محسوس کر رہی ہیں؟

نوشین کنول: یہ بات بالکل درست ہے کہ میرا الیکشن سب سے مشکل تھا، کیونکہ میرے ساتھ کوئی بڑے سیاسی خاندان کا نام بھی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ مخالف الیکشن لڑنے والے پسماندہ معاشرے میں خواتین کے سیاست میں کردار کو ہی غلط قرار دینے سمیت ہر طرح کے منفی پروپیگنڈہ تک چلے گئے تھے۔ الیکشن جیت کر برا تو کسی کو بھی نہیں محسوس ہوتا، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ جیت صرف میری جیت نہیں ہے۔ میرے ساتھ جدوجہد کرنے والے تمام سیاسی ساتھیوں کی جیت ہے، دریک عید گاہ وارڈ کے تمام رقبوں کی خواتین اور نوجوانوں کی جیت ہے، جنہوں نے قبیلے، کنبے سمیت ہر طرح کے تعصبات کو بالائے طاق رکھا اور ایک انتخابی منشور کی بنیاد پر نہ صرف انتخابات میں کامیابی حاصل کی بلکہ بڑی طاقتور قوتوں کو شکست دی۔ اب ہم پر عزم ہیں کہ بلاتخصیص منشور اور پروگرام پر عملدرآمد کریں گے۔

کچھ اپنے بارے میں بتائیں، سیاست میں کیسے متحرک ہوئیں؟ گھر، سیاست اور وکالت کیلئے وقت کیسے بیلنس کرتی ہیں؟

نوشین کنول: مجھے 12 سال سے زائد ہو گئے ہیں میں سیاست میں متحرک ہوں اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہوں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک رہی اور سائنسی سوشلزم کے نظریات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتی آئی ہوں۔ گزشتہ لمبے عرصہ سے اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کیلئے عملی جدوجہد کا حصہ رہی ہوں۔ میرے والد فوت ہو گئے تھے، بڑی بہنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہوں، ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے، اس لئے خاندان کے کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں کیلئے وقت بھی نکالنا پڑتا ہے۔ جب آپ کے پاس نظریات ہوں، کچھ کر گزرنے کی لگن ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ گھر کو وقت دینا، پریکٹس کو وقت دینا اور پھر سیاسی سرگرمی کرنا مشکل ضرور ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کو سیاست میں سامنے آنا چاہیے اور وہ بہتر انداز میں یہ سب مینیج کر سکتی ہیں۔

بلدیاتی انتخابات کیلئے عمومی تاثر دیا جاتا ہے کہ قبیلے اور کنبے کی بنیاد پر جیتا جاتا ہے۔ خاتون ہو کر اور پھر کسی زیادہ ووٹ بینک رکھنے والے کنبے یا سیاسی بیک گراؤنڈ والے خاندان سے تعلق نہ ہونے کے باوجود آپ یہ کامیابی کیسے حاصل کر پائیں؟

نوشین کنول: بلدیاتی انتخابات پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ہوں وہ قبیلے، کنبے اور برادری کی بنیاد پر ہی لڑے جاتے ہیں، یا پھر بڑے شہروں میں سیاسی و معاشی اثر و رسوخ کی بنیاد پر لڑے اور جیتے جاتے ہیں۔ ہم شروع سے ہی نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتے آئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ نظریات کی بنیاد پر ہی انتخابات میں جا کر لوگوں کو تعصبات سے آزاد بھی کیا جا سکتا ہے اور فیصلہ سازی میں کسی حد تک عام لوگوں کے اختیار کو لیا جا سکتا ہے۔

میرے خاندان میں کوئی اور سیاست میں نہیں تھا، خاندان کا ووٹ بینک پر بھی کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا، البتہ میرے مد مقابل جو لوگ تھے وہ بہت طاقتور سمجھے جاتے ہیں اور وہ ایک بڑے ووٹ بینک پر بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ میرے پاس پیپلز پارٹی کا ٹکٹ تھا، لیکن بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ٹکٹ سے زیادہ آپ کی برادری، خاندان اور قبیلے کے ووٹ بینک کو ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خاتون ہونے کو بھی مخالفین ایک کمزوری سمجھ رہے تھے، جو آخر میں میری طاقت بھی بنی۔ مذہب کا استعمال کر کے خاتون کی امامت کو ناجائز قرار دیا گیا اور اسی نوعیت کی فتویٰ بازی کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ خاتون کمزور ہوتی ہے اور وہ تھانہ، کچہری کے معاملات کو حل نہیں کر سکتی البتہ وارڈ کی باشعور خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں نے پروپیگنڈہ کا جواب ووٹ کی طاقت سے دیا اور طاقتوروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابات میں میرے ساتھ مہم چلانے والے تمام انقلابی دوستوں، عوام علاقہ، بالخصوص خواتین اور بزرگوں کی میں بے حد شکر گزار ہوں اور احسان مند بھی ہوں۔

میں سمجھتی ہوں کہ یہ میری شخصیت کی کامیابی نہیں ہے، یہ انتخابی منشور اور پروگرام کی فتح اور کامیابی ہے۔ لوگوں نے مجھے نہیں بلکہ انتخابی پروگرام کو ووٹ دیا ہے۔ تعصبات اور مال و دولت کی بنیاد پر انتخابات کو ہائی جیک کرنے والوں کا راستہ روکنے کا بھی میرے خیال میں یہی ایک طریقہ ہے کہ نظریات، پروگرام اور جدوجہد کی بنیاد پر لوگوں کو منظم کیا جائے۔

آپ کے انتخابی منشور میں کیا اہم نکات تھے، جن کی بنیاد پر لوگوں نے آپ کا انتخاب کیا اور اس پر عملدرآمد کیسے ہو پائے گا؟

نوشین کنول: ہم نے اپنے انتخابی منشور میں وارڈ کے مسائل کو اجاگر کیا اور ان کے حل کیلئے ترجیحی اقدامات اور جدوجہد کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ سب سے بڑھ کر ہم نے فیصلہ سازی میں عام لوگوں، خواتین اور نوجوانوں کو شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہم نے پروگرام دیا ہے کہ ہم عوامی کمیٹیاں تشکیل دینگے اور نہ صرف ترقیاتی منصوبہ جات ان کمیٹیوں کی مشاورت اور نگرانی میں کروائے جائیں گے بلکہ اپنی وارڈ اور میونسپل کارپوریشن میں شہریوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے کمیٹیوں کے ذریعے ہی شہریوں کو متحرک کرینگے اور جدوجہد کرینگے۔

یوں ہماری وارڈ کے لوگوں نے ایک کونسلر کو نہیں منتخب کیا بلکہ انہوں نے کونسلر کے اختیارات کو اپنے لئے حاصل کیا ہے۔ ان اختیارات سے متعلق فیصلہ سازی میں وہ خود بھی حصہ دار ہونگے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس خطے میں اتنے مسائل ہیں، جو ممبران اسمبلی اور وزرا اعظم بھی حل نہیں کر سکتے، تو ایک کونسلر کتنے ایک مسائل حل کر سکتا ہے۔ تاہم ہمیں یہ یقین ہے کہ عوام کی طاقت اور جدوجہد کی بنیاد پر بڑے سے بڑے مسائل کو حل کروایا جا سکتا ہے۔ بڑے سے بڑے منصوبہ جات کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کونسلر کے فنڈز کو مشترکہ مشاور ت سے خرچ کرنے کے ذریعے عوامی کمیٹیوں میں وہ حوصلہ اور اعتماد پیدا کیا جا سکتا ہے کہ وہ جدوجہد کومنظم کر سکیں۔

ہم یہ بھی لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم چار سال لوگوں کے اسی طرح درمیان رہیں گے، جیسے پہلے موجود تھے۔ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرینگے، خواتین کو سیاست سمیت ہر شعبے میں عملی طور پر شامل کرنے کیلئے منظم کرینگے، انکی سیاسی تربیت کرینگے۔ اس لڑائی کو صرف یہیں تک رکنے نہیں دینگے بلکہ اسے آگے ریاستی سطح تک منظم کرینگے اور پھیلائیں گے۔

خواتین کی سیاست میں شمولیت کو یہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا، یہی وجہ ہے کہ خواتین سیاست میں متحرک ہونے سے بھی کتراتی ہیں۔ آپ اپنی کامیابی کو خواتین کے نام کر رہی ہیں، تو اس موقع پر انہیں کیا پیغام دیں گی؟

نوشین کنول: یہ بالکل درست ہے کہ خواتین کے سیاست کرنے کو بہت اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ گزشتہ چند سالوں کے دوران خواتین نے اس خطے میں اپنے لئے تھوڑی بہت جگہ بنا لی ہے۔ ابھی بھی سیاست کرنے والی خواتین کو طعنے دیئے جاتے ہیں، ان کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ خاص کر اگر کوئی ترقی پسند یا بائیں بازو کے نظریات کی بات کرنے والی خاتون ہو تو اس پر کفر کے فتوے بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم نے انتخابی مہم کے دوران سامنا بھی کیا ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ خواتین کو آگے بڑھ کر چیلنج کرنا چاہیے، سیاست ہی نہیں ہر شعبے میں خواتین کو یکساں مواقع حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے۔

میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ انتخابی جیت صرف میری نہیں ہے، یہ جیت ہماری وارڈ کی تمام متوسط گھرانوں، محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی جیت ہے، یہ تمام طالبات کی جیت ہے اور بالعموم یہ پورے خطے کی محنت کش خواتین کی جیت ہے۔ ہمیں اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے نظریات کی بنیاد پر سیاسی میدان میں آنا ہو گا۔ خواتین کو آگے بڑھ کر اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانی ہو گی۔ حقوق صرف مانگنے سے نہیں ملتے بلکہ بڑھ کر چھینے جاتے ہیں۔ آبادی کا 50 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور خواتین کی عملی شرکت کے علاوہ کوئی بھی بڑا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

خواتین کو نجات بھی صرف اور صرف منظم ہو کر جدوجہد کرنے کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔ میں تمام نوجوان خواتین اور طالبات سے یہی اپیل کروں گی کہ وہ آگے بڑھیں، نظریات کا مطالعہ کریں اور سیاسی جدوجہد کو حصہ بنتے ہوئے ظلم اور نا انصافی پر مبنی معاشرے کی تبدیلی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔