محسن داوڑ
ایڈووکیٹ لطیف آفریدی کی وفات سے نہ صرف ترقی پسند اور جمہوریت نواز لوگ ایک اہم اہم رہنما سے محروم ہو گئے ہیں بلکہ ایک انتہائی نفیس انسان سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
ذاتی طور پر میں ایک اہم نظریاتی استاد سے محروم ہو گیا ہوں۔ اس عظیم انسان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ ہیں نہ اپنا درد بیان کرنے کے لئے۔
لطیف لالا ایک مارکسٹ تھے۔ انہوں نے ایک غیر معمولی زندگی گزاری جس کے پیچھے یہ سادہ سا اصول تھا کہ وہ نا انصافی کے خلاف لڑیں گے۔ وسیع تر علاقائی بساط کو مد ِنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جو قانونی اور سیاسی جنگیں لڑیں وہ کسی ایک شخص کے بس کی بات نہ تھیں۔
میں ان کی سوچ اور جدوجہد سے واقفیت رکھتا ہوں کیونکہ ہم نے مل کر قانونی و سیاسی حکمت عملیاں تشکیل دیں، ایک غاصبانہ ریاست سے لڑے، افغانستان اور پشتون خطے میں سٹریٹیجک پالیسی کے خلاف نبرد آزما رہے، ملک میں لاپتہ افراد کی رہائی کے ئے مشترکہ کوششیں کیں، سابق فاٹاکے سیاسی حقوق کے لئے کتنی ہی رکاوٹوں کو اکٹھے عبور کیا، پختونخواہ میں دہشت گردی اور ریڈیکلائزیشن کے حوالے سے ریاست کی ناکام پالیسیوں کے خلاف مل کر آواز اٹھائی اور جمہوریت کے آدرش کی خاطر جدوجہد کی۔
ایک ایسا نظام جس میں ہر بات کو سلامتی کا سوال بنا دیا گیا ہے اور جو لوگوں کے وسائل کی لوٹ مار پر مبنی ایک غاصبانہ نظام ہے جس نے بعض کمیونٹیوں کے خلاف شدید نا انصافیاں کی ہیں،ان کے وسائل کا استحصال کیا ہے، لالا لطیف آفریدی اس نظام کے خلاف بے آواز لوگوں کی آواز بن کر ابھرے۔
جب لوگ مشکل بات کہنے سے کتراتے تھے، لالا لطیف آفریدی نے ببانگ دہل سچ بولا، قانون کی بالا دستی کی بات کی، شخصی آزادیوں کا کھل کر دفاع کیا اور مظلوم پر ظالم کے ہرظلم پر آواز اٹھائی۔ طاقتور حلقوں کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے وہ نوجوان کارکنوں کو ہمیشہ محتاط رہنے کی تلقین کرتے کیونکہ انہیں علم تھا کہ یہ خطروں سے بھرا کام ہے البتہ وہ خود بے باک ہو کر حساس معاملات پر بات کرتے۔ لاپتہ افراد کے لئے جو قانونی جنگ انہوں نے لڑی، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
شدید دباؤ کے باوجود لالہ لطیف آفریدی نے انتہائی مشکل وقت میں کھل کر میرا ساتھ دیا۔ وہ وکلا کے اس پینل کی سربراہی کر رہے تھے جس نے عدالت میں میرا اور میرے ساتھیوں کا مقدمہ لڑا۔ پاکستان میں افراتفری سے بھرے سیاسی میدان میں ایک ترقی پسند اور لبرل پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لئے انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھنے میں ہماری مدد کی۔
لالہ لطیف آفریدی چھ دہائیوں تک پاکستان کے قومی افق پر متحرک رہے۔ ان سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ میں ان میں سے ایک ہوں۔ میرا ان سے ابتدائی رابطہ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی وجہ سے ہوا۔ پھر میں نے ان کے چیمبر میں اپرنٹس شپ کی۔ بعد ازاں، ہم نے مل کر نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس سارے سفر میں وہ رہنمائی بھی کرتے رہے اور حوصلے کا سبب بھی بنے رہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھنے میں ان کا کلیدی کردار تو تھا ہی، انہوں نے اس جماعت کی قیادت میرے سپرد کرنے کے حوالے سے مجھ پر بھر پور اعتماد کیا۔ انہوں نے وکلا، سیاستدانوں، قوم پرستوں، سماجی کارکنوں، ترقی پسندوں اور نوجوانوں کی پوری نسل کو متاثر کیا۔ ہر طرح کے سیاسی نظریات رکھنے والے حلقوں میں ان کو تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
گو دنیا انہیں آئین و قانون کی سربلندی کے لئے کام کرنے والی عظیم شخصیت کے طور پر یاد کر رہی ہے مگر وہ اس کے علاوہ ایک ایسے انسان بھی تھے جنہیں مقامی ثقافت اورفنون لطیفہ سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ وہ فنکاروں کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ ہر وقت مطالعہ میں غرق نظر آتے۔ حس ِمزاح کمال کی تھی۔ اپنے شاگروں کے لئے ان کا دل سخاوت سے بھرا ہوا تھا۔ بلا کے مقرر تھے۔ سننے والوں پر سحر طاری کر دیتے۔ وہ چونکہ سیاسی و قانونی بصیرت کے حوالے سے جانے جاتے تھے اس لئے نوجوان سیاستدان، کارکن، وکیل، اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ سیاست، قانون اور علاقائی و ملکی حالات کے تجزئے کے لئے ان سے رابطہ کرتے۔
ایک زیرک ترین، بہادر اور نفیس انسان کی جدائی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ہمیں خود سے ایک سوال ضرور پوچھنا چاہئے: ہمیں قانون کی بالا دستی، جمہوریت اور جمہوری معاشرے، اورتشدد سے پاک سماج بنانے کا جو فریضہ درپیش ہے، اس کے ساتھ کیسے نپٹنا ہے؟
لالہ لطیف آفریدی نے جو مثال قائم کی ہے، اس سے سبق سیکھ کر ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔ مظلوم کے لئے آواز اٹھانا ہو گی۔ ذاتی خواہشات کی بجائے قانون کے راستے پر چلنا ہو گا۔ جمہوری آدرشوں کی طاقت کو سمجھنا ہو گا۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ ہرانسان دوسروں کے لئے کچھ کر سکتا ہے۔
لالا لطیف آفریدی ایک ایسے مشکل وقت میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں کہ جب پشتوں خطہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے ہتھے چڑھنے والاہے۔ اس موقع پر ان کی بے باک آواز یاد آئے گی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ نا انصافی کے خلاف لڑنا فخر کی بات ہے۔
انسانی حقوق کی جدوجہد، جمہوریت اور آئین میں غیر متزلزل یقین اور بے آوازوں کی آواز بننے کے لئے لالا لطیف آفریدی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
بشکریہ: دی نیوز (یہ مضمون انگریزی سے ترجمہ کیا گیا)