نقطہ نظر

ایک ممتحن کی غلطی نے آشکار کیا

فاروق سلہریا

حال ہی میں کامسیٹ سے ایک لیکچرر کو اس وجہ سے برطرف کر دیاکہ گیا کہ انہوں نے انگریزی زبان کے پرچے میں ایک ’اخلاق باختہ‘ سوال پوچھ لیا۔

اگر تو اس ملک میں یا جامعہ کامسیٹ میں اکیڈیمکس کی کوئی متحرک اور حقیقی یونین ہوتی تو یونیورسٹی کو یہ جرات نہ ہوتی کہ ایک لیکچرر کو محض ایک ’متنازعہ‘ سوال پوچھنے پر برطرف کر دیتی۔

دوسری جانب، مزید خوفناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض ترقی پسند دوست اس غیر اخلاقی، غیر قانونی برطرفی پر احتجاج کی بجائے مذکورہ لیکچرر کو ہی مورد الزام ٹھرا رہے ہیں…یعنی وہی وکٹم بلیمنگ والی منطق: عورت آدھی رات کو موٹر وے پر یا شام ڈھلے ایف نائن پارک گئی کیوں؟

اسی طرز کا ایک غیر متوقع کالم ’ہم سب‘ میں ہمارے انتہائی عزیز دوست اور اکیڈیمک آعمش حسن عسکری نے شائع کیا۔ آعمش حسن عسکری انتہائی مدلل بات کرتے ہیں۔ ترقی پسند رجحانات رکھتے ہیں۔ ’روزنامہ جدوجہد‘ میں بھی کنٹری بیوٹ کر چکے ہیں۔ ذاتی دوست بھی ہیں۔ اس لئے زیر نظر تحریر انتہائی کامریڈلی جذبے کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے جس کا مقصد بحث کو آگے بڑھانا ہے۔

آعمش حسن عسکری کے خیال میں مذکورہ لیکچرر نے ’متنازعہ‘ سوال پوچھ کر دو طرح غلطی کی۔ ایک یہ کہ امتحان لینے کا مقصد طالب علموں کی انگریزی زبان جانچنا تھا، اس مقصد کے لئے اور طرح کا سوال پوچھا جا سکتا تھا (ان کا خیال ہے کہ فلسفے کا پرچہ ہوتا تو اس طرح کا سوال شائد پوچھا جا سکتا تھا)۔ دوم، برطرف لیکچرر کی اس حرکت کی وجہ سے اکیڈیمکس کو دستیاب آزادی اظہار میں مزید کمی آئے گی۔

آعمش حسن عسکری کا یہ مضمون اس لنک پر دستیاب ہے۔

آعمش حسن عسکری کے دلائل کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ آزادی اظہار اور اکیڈیمک فریڈم کا اصول طے کر لیا جائے۔

اس ضمن میں عرض ہے کہ آزادی اظہار دیگر آزادیوں کی طرح ’مادر پدر‘ آزادی کا نام ہے۔ اس میں کوئی اگر مگر نہیں چلتا۔ آزادی اظہار کے نام پر صرف مندرجہ ذیل حرکتیں نہیں کی جا سکتیں:

جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔

حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

کسی کے خلاف تشدد پر نہیں اکسایا جا سکتا (یعنی دوسروں کی جان محفوظ رہنی چاہئے۔ لبرل حضرات کہیں گے کہ جان و مال،دونوں محفوظ رہنے چاہئیں۔ بطور سوشلسٹ ہم لبرل نوع کے اس مطالبے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں جس پر بحث پھر کبھی سہی)۔

دلیل کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اسے اصول کے تابع ہونا چاہئے۔ اگر ہم ترقی پسند ہیں تو ہمارے کچھ اصول بھی ہیں ورنہ ہم موقع پرست ہیں۔ ترقی پسندوں اور قوم یوتھ میں اگر فرق ہے تو اصول پرستی کا ہے۔ دوم، دلیل وہ ہوتی ہے جو یونیورسل ہو۔ اگر ایک سوال آکسفورڈ یونیورسٹی میں پوچھا جا سکتا ہے تو وہ سوال کامسیٹ میں اٹھانے کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ اگر ہم دلیل کو ’Relative‘ بنا دیں گے تو یہ ہمارے گلے پڑ جائے گی۔ اگر کامسیٹ کا لیکچرر محرمات کے مابین سیکس پر سوال نہیں پوچھ سکتا تو پاکستان کے فوجی بجٹ پر سوال اٹھانا بھی منع ہونا چاہئے۔ کیا خیال ہے؟

یہ درست ہے کہ پاکستان کے حالات میں بعض سوال اٹھانے کا مطلب ہے کہ انسان جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ راقم خود درس و تدریس اور صحافت سے وابستہ ہے۔ ایک ایک لفظ بولنے سے پہلے تولنا پڑتا ہے۔ لکھنے سے پہلے پرکھنا پڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مولویوں، رجعت پسندوں اور آمروں کو خوش کیا جائے۔ اگر کوئی وہ سوال کرنے کی جرات کرتا ہے (یا غلطی سے،نادانستہ طور پر ہی پوچھ لیتا ہے…آعمش حسن عسکری کا خیال ہے کہ برطرف لیکچرر کوئی لبرل انسان نہیں، ممکنہ طور پر کام کے دباؤ کی وجہ سے کاپی پیسٹ سے کام لیا گیا ہے)تو وکٹم بلیمنگ کی بجائے اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مولویوں، رجعت پسندوں اور طالع آزماوں کو مسئلہ اس سوال سے نہیں جو امتحانی پرچے میں پوچھا گیا ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ حدود و قیود کا تعین وہ کریں گے۔ ترقی پسند موقف ہے کہ حدود و قیود ہونی ہی نہیں چاہئیں۔ اگر آج انگریزی کے پرچے میں ایک سوال غلط قرار پایا ہے تو کل فلسفے کے شعبے میں بھی کوئی سوال نہیں پوچھا جا سکے گا۔ اگر آج کامسیٹ سے اس بہانے کسی کو نکالا گیا ہے تو کل مجھے میری یونیورسٹی سے کسی بہانے نکالا جا سکتا ہے۔ عمار علی جان سے لے کر پرویز ہود بھائی تک، کتنی ہی جامعات نے بہترین اساتذہ کو آزادی اظہار کے نام پر ہی برطرف کیا۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ عمار علی جان یا پرویز ہود بھائی کی برطرفی پر تو شور مچایا جائے مگر کامسیٹ کے کسی لیکچرر کی دفعہ ہم وکٹم بلیمنگ شروع کر دیں۔

اسی طرح یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ آعمش حسن عسکری نے اس برطرفی کی مذمت نہیں کی۔ ایک ملازم کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ مالکان کو ہرگز یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ کسی کو بیک جنبش قلم بے روزگار کر دیں۔ اس برطرفی سے اکیڈیمک کمیونٹی مزید کمزور ہوئی ہے نہ کہ ’متنازعہ‘ سوال امتحانی پرچے میں شامل کرنے سے۔

پاکستان جیسے ملکوں میں آزادی اظہار کو کیسے بڑھانا ہے اس کے لئے بلا شبہ حکمت عملی اور داؤ پیچ پر مسلسل بحث ہونی چاہئے۔ مہم جوئی نہیں کرنی چاہئے…لیکن اگر کوئی مہم جو کوئی مہم جوئی کر بیٹھے تو الزام مہم جو کو نہیں دیا جاتا۔

ہمیں الذولفقار کے طریقہ کار سے اختلاف تھا لیکن اس کا مطلب ہر گز بھی یہ نہ تھا کہ ضیا آمریت کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جاتے۔

مزید براں، حکمت عملی اور داو پیچ تشکیل دیتے ہوئے مزاحمت کا یہ تاریخی سبق بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم ہر بات پر خاموشی اختیار کرتے رہے تو ایک دن ہم بولنا بھول جائیں گے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔