خبریں/تبصرے

پاکستان: 20 فیصد امیر ترین افراد 49.6 فیصد قومی آمدن کے مالک

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ان ڈائریکٹ (بالواسطہ) ٹیکس عائد کئے جا کر تجارتی خسارہ اور قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کیلئے رقم جمع کئے جانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ مجموعی طور پر پوری آبادی پر پڑتا ہے، دوسرے لفظوں میں بحران کا بوجھ امیر ترین افراد کی بجائے غریب عوام کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔

حقیقت میں پاکستان کی 220 ملین آبادی میں سے 22 فیصد سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے امیر ترین ایک فیصد کے پاس ملک کی مجموعی آمدنی کا 9 فیصد حصہ ہے، جبکہ غریب ترین ایک فیصد کے پاس صرف 0.15 فیصد ہے۔

یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے امیر ترین 20 فیصد کے پاسقومی آمدن کا تقریباً نصف یعنی 49.6 فیصد حصہ ہے، جبکہ غریب ترین 20 فیصد کے پاس محض 7 فیصد ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریب ترین اورامیر ترین پاکستانی مکمل طور پر مختلف ملکوں میں رہتے ہیں۔ ان میں خواندگی کی سطح، صحت کی صورتحال اور معیار زندگی ایک دوسرے سے یکسر متضاد ہیں۔

دوسری جانب جمع کئے گئے ٹیکسوں میں سے ملکی اشرافیہ کو تنخواہوں کے علاوہ سالانہ 70 ارب ڈالر کی مراعات دی جاتی ہیں۔ اس اشرافیہ میں سیاستدان، بیوروکریٹ، جج اور جرنیل وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹریعنی سرمایہ داروں کو سالانہ 17.5 ارب ڈالر سے زائد کی سبسڈی دی جاتی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان پر اس وقت 130 ارب ڈالر کے لگ بھگ بیرونی قرض موجود ہے، جس کی اقساط کی ادائیگی کیلئے نئے قرض پروگرام کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں سخت ترین شرائط کو نافذ کیا جا رہا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts