لاہور (جدوجہد رپورٹ) حکومت کیلئے آئی ایم ایف کو قرض کی قسط جاری کرنے کیلئے قائل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے معاشی بیل آؤٹ پر عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے سے پہلے کم از کم چار پیشگی اقدامات کی تشریحات کو تبدیل کر دیا ہے۔
’ڈان‘ کے ذرائع کے مطابق حکام تازہ صورتحال پر انتہائی برہم ہیں اور اسے بدسلوکی قرار دے رہے ہیں۔
ایک ناراض سینئر اہلکار نے تبصرہ کیا کہ ’ہم آئی ایم ایف کے ممبر ہیں، بھکاری نہیں ہیں، ورنہ ہماری رکنیت ختم کر دی جائے۔‘
ایک اور اہلکار نے تو صورتحال کو 1998ء سے تشبیہ دی، جب ایٹمی تجربات کے نتیجے میں پاکستان کی معاشی مشکلات بڑھ گئی تھیں اور ڈیفالٹ قریب آ رہا تھا۔
حکام کے مطابق آئی ایم ایف عوامی سطح پر غریبوں کی مدد کے دعوے کرتا رہا ہے۔ تاہم اندرون خانہ ایسے اقدامات پر اصرار کررہا تھا، جو بالآخر کم آمدنی والے طبقوں کومتاثر کریں گے۔
حکام تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں میں فرق، ماضی میں متفقہ پالیسی اقدامات سے انحراف کے بعدپاکستان کی ساکھ کے متاثر ہونے اور اعتماد کا فقدان ایسے عوامل تھے جنہوں نے کچھ ملکوں کو پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کام کرنے پر مجبور کیا۔
آئی ایم ایف کے نامکمل قرض پروگرام کے ایجنڈے میں شامل چار آئٹمز میں مرکزی بینک کی شرح سود اضافہ، ڈالر کی افغانستان سمگلنگ روکنے، دوست ملکوں کی جانب سے قرض کی فراہمی کی تحریری یقین دہانیاں اور بجلی صارفین کیلئے 4 روپے فی یونٹ فنانسنگ لاگت سرچارج کئی سالوں تک عائد کرنے کی شرائط شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کو مانیٹری پالیسی پر بھی اعتراضات ہیں۔
حکام کا خیال ہے کہ 9 فروری کی رات آئی ایم ایف مشن کے پاکستان کے دورے کے اختتام سے قبل تمام معاملات طے پا چکے تھے اور یہاں تک کہ فنڈ کی جانب سے ایک اختتامی بیان میں بھی جامع مذاکرات اور مثبت نتائج کی اطلاع دیئے جانے کی توقع تھی۔ تاہم بیرون ملک منظوری کا عمل کچھ بااثر حلقوں کی وجہ سے متاثر ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف عوامی سطح پر تو امیرں پر ٹیکس اور غریبوں کی حمایت کی بات کرتا ہے، تاہم جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے پر اصرار بھی کرتا ہے۔ بینکوں جیسے زیادہ کمانے والوں پر ٹیکس لگانے کی بھی آئی ایم ایف کی جانب سے مخالفت کی گئی، جبکہ اعلیٰ درجے کے گروہوں پر سیلابی محصول کی بھی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ معیاری اقدامات نہیں ہیں۔