فاروق سلہریا
بی بی سی اردو پر وسعت اللہ خان کا کالم ”بات سے بات“ بلا شبہ ایک مقبول کالم ہے۔ بعض اوقات وہ اچھا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان کے کالم کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ بعض اوقات باغیانہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف بات کہنے کی کوشش میں وہ بات کو لفاظی کی حد تک محدود رکھتے ہیں اور ان کا نقطہ نظر سوائے کنفیوژن پھیلانے کے کچھ نہیں کرتا۔ اس کی ایک مثال ہے گذشتہ اتوار پیش کیا جانے والا ان کا کالم بعنوان ”اب اسرافیل کو صور پھونکنے کی ضرورت نہیں“۔
اپنے کالم کے شروع میں وہ 2010 ء میں آنے والے سیلاب کے بارے میں اپنے تجربات بیان کرنے کے بعد ان غریب لوگوں پر طنز کرتے ہیں جو جان بچانے کی بجائے مال مویشی بچانے کی فکر میں تھے۔ عموماً وہ خود کو عوامی شخصیت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان سے ایسے طبقاتی تعصب کی امید نہ تھی مگر کہنا وہ یہ چاہ رہے تھے کہ صدر ٹرمپ سے لے کر ان کے محلے کے(غالباً ایک فرضی کردار) محمد خان درزی تک، کسی کو ماحولیاتی تباہی کی کوئی فکر نہیں۔
اس کے بعد وہ ایک انقلابی پینترا بدلتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی بھی ایک سرمایہ دارانہ چال تھی اور اس کے خلاف چلنے والی تحریک بھی ایک سازش ہے۔ پہلے سرمایہ داروں نے ماحول کی قیمت پر کنزیومر ازم پھیلایا۔ اب گرین ٹیکنالوجی کے نام پر پیسے بنائے جائیں گے۔
آخر میں وہ مذہب سے رجوع کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت میں اضافہ دراصل صورِ اسرافیل ہے۔
ہمارے محترم کالم نگار کے نظریات کئی اعتبار سے غلط بلکہ نا معقول ہیں۔ اس نا معقولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں، کم از کم اس کالم سے تو یہی لگتا ہے، کہ اس موضوع کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ پاکستان میں اکثر کالم نگار اور تمام اینکر پرسن چونکہ عقل ِکل ہیں لہٰذا بغیر تحقیق سازشی نظریات کو گھما پھرا کر پیش کرتے رہتے ہیں۔ بات میں وزن ڈالنے کے لئے یا مذہب کی لیپا پوتی کر دیتے ہیں یا قوم پرستی کا نمک مرچ چھڑک دیا جاتا ہے۔ وسعت اللہ خان نے بھی یہی کیا ہے۔
ذرا صورِ اسرافیل کی مثال ہی لے لیجئے۔ اگر یہ صورِ اسرافیل ہے تو پھر گلوبل وارمنگ کے خلاف جدوجہد کرنے سے فائدہ؟ گویا نا امیدی اور مایوسی پھیلاتا ہوا یہ کالم آخر میں مذہب کا سہارا لیتا ہے محض لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ہتھکنڈہ بہت جانا پہچانا ہے۔ سیاسی جدوجہد کے بارے میں مایوسی پھیلانے کے لئے مذہب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بھر میں نوجوان، بالخصوص طالب علم سرمایہ دارانہ تباہیوں کے خلاف، نسل، قوم اور مذہب سے بالا تر ہو کر عالمی یکجہتی کی شاندار نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں اور گریتا تھن برگ اقومِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے ڈونلڈ ٹرمپ کو پریشان کر رہی ہے، بی بی سی کے کالم نگار ہمیں بتا رہے ہیں کہ قیامت آ رہی ہے کیوں جدوجہد میں وقت برباد کرتے ہو۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وسعت اللہ خان اپنے کالم میں فضل الرحمٰن، سراج الحق یا بڑے بڑے مفتیوں سے، جو ہر وقت ہر مسئلے کا”مذہبی حل“ ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں، ان سے پوچھتے کہ بھائی بتاؤ کوئی تریاق اس گلوبل وارمنگ کا؟ موصوف الٹا لوگوں کو عدم جدوجہد کاپیغام دے کر ٹرمپ، پیوتن اور چین کی افسر شاہی کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں جو اس بات سے ہی منکر ہیں کہ گلوبل وارمنگ ہو رہی ہے اور ہمیں کچھ کرنا چاہئے۔
مذکورہ کالم میں مذہب سے بھی زیادہ خطر ناک استعمال اس سازشی نظرئیے کا ہے کہ گرین موومنٹ سامراجی سرمایہ داروں کی سازش ہے۔ اسے احمقوں کی سامراج مخالفت ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس دعویٰ سے وسعت اللہ خان کی اس موضوع سے مکمل لا تعلقی و لا علمی کا اظہار ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ ماحولیات کی تباہی صرف سرمایہ داری نے نہیں کی۔ سٹالنزم نے سویت روس اور ماؤ ازم نے چین میں بھی جو جرائم کئے انسانی ماحولیات اس کے اثرات سے باہر آنے کے لئے صدیوں انتظار کرے گی۔ دوم، سامراجی سرمایہ داروں کی اکثریت ہر سال ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے ایسی تحقیقات پر صرف کرتی ہے جس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ گلوبل وارمنگ ایک فطری عمل ہے یا یہ کہ گلوبل وارمنگ ہو ہی نہیں رہی۔ پیوتن، ٹرمپ، بولسنارو، ژی پنگ اور ان جیسے دیگر سیاسی رہنما جو سرمایہ داروں کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ سب یا تو ماحولیاتی تبدیلی کے منکر ہیں یا اس کی کوئی تاویل ڈھونڈرہے ہوتے ہیں۔ برازیل، پولینڈ، بھارت اور چین کی رائٹ ونگ حکومتیں اکثر اپنے ماحول دشمن کردار کو چھپانے کے لئے جعلی سامراج مخالفت کی آڑ لیتے ہیں (یاد رہے ان کی ایسی پالیسیوں کا فائدہ سرمایہ داروں کو ہوتا ہے نہ کہ مزدور طبقے کو اور یوں ماحولیات ایک اہم طبقاتی مسئلہ بھی ہے)۔ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماحول دشمن ملک ہے (فی کس کی بنیاد پر امریکہ ہے)۔
برا زیل کے موجودہ فسطائی نما صدر بولسنارو کی مثال ہی لیجئے۔ گذشتہ دنوں جب ایمازن کے جنگلات آگ کی لپیٹ میں آئے ہوئے تھے، برازیل کی حکومت یورپ کے ساتھ بیان بازی کے ذریعے، بین السطور، یہ بتا رہی تھی کہ یورپ نے ماحولیات تباہ کر کے ترقی کی، اب یورپ ماحول کے نام پر برازیل کی ترقی روکنا چاہتا ہے۔
اسی نوع کی سامراج مخالفت وسعت اللہ خان کر رہے ہیں۔ دراصل اکثر دانشور جن کا جدوجہد یا عملی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا جو تاریخ کو طاقتور افراد کی عقل اور بیوقوفی تک محدود رکھتے ہیں، انہیں ہر تحریک سازش دکھائی دیتی ہے۔ وسعت اللہ خان نے کبھی سوچا: ایسا کیوں ہے کہ اسکینڈے نیویا میں بالخصوص اور مغربی یورپ میں کافی حد تک ماحولیات کا خیال چین، امریکہ اور روس کی نسبت زیادہ رکھا جاتا ہے؟ یہ سب ایک طرح سے سامراجی ممالک ہیں۔ پھر یہ فرق کیوں اور یورپی سرمایہ دار کو بھی منافع سے محبت ہے ماحول سے نہیں؟
سویڈن سے تعلق رکھنے والی گریتا تھن برگ اس وقت عالمی سطح پر گرین موومنٹ کی علامت بن کر ابھری ہے۔ ایسا کیوں؟ کوئی انڈونیشین، ویت نامی، چینی یا پاکستانی طالب علم کیوں نہیں؟ ان سوالوں کا آسان جواب ہے کہ یورپ اور بالخصوص اسکینڈے نیویا میں ماحولیات بارے شعور بہت مضبوط ہے۔ راقم سویڈن کے حوالے سے، ذاتی تجربات کی بنیاد پر بتا سکتا ہے کہ سویڈن میں رہنے کے بعد لندن جا کر بھی یہ لگتا ہے کہ لندن ماحولیات کے حوالے سے بہت پس ماندہ ہے(بلا شبہ سویڈن میں بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اور بہت سے اہم معاملات، مثلاً نیوکلیئر توانائی کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے)۔
دو سوال ایسے ہیں کہ سویڈن کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بھی اِن پر بڑھ چڑھ کر چیمپئین بنتی ہیں۔ ایک عورتوں کے حقوق۔ دوم، ماحولیات۔ سویڈن میں سالڈ ویسٹ کی ری سائیکلنگ لگ بھگ اسی فیصد تک ہے۔ ناروے تو سو فیصد تک پہنچنے والا ہے۔ وسعت اللہ خان نے گریتا تھن برگ کی جدوجہد بارے ہی پڑھا ہوتا تو ان کو اندازہ ہو جاتا کہ گریتا تھن برگ سویڈن جیسے ملک میں کیوں سامنے آئی۔
رہی یہ بات کہ ہمارے کسان سیلاب کے دوران جان بچانے سے زیادہ ڈھور ڈنگر کی فکر میں لگے ہوتے ہیں، تو اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں مگر اس پر ان کسانوں سے یکجہتی کی ضرورت ہے نہ کہ تمسخر اڑانے کی۔ جس ملک کے پاس ایٹمی بم ہو مگر کتا کاٹے کی ویکسین نا پید، وہاں جان سے زیادہ کسان کو مال مویشی کی فکر کرنا پڑتی ہے۔ ایسے ملکوں میں مال مویشی وہ طوطا ہوتا ہے جس میں کسان نامی جن کی جان ہوتی ہے۔ جب کسانوں کو برطانوی پونڈ میں ماہانہ چیک ملنے لگیں گے، وہ بھی مال کی بجائے جان کی فکر کرنے لگیں گے۔
وسعت اللہ خان کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ قیامت کا انتظار کرنے کی بجائے جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ بی بی سی جیسا عوامی پلیٹ فارم مایوسی اور جہالت پھیلانے کی بجائے عوامی شعور بہتر بنانے کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔