خبریں/تبصرے

ترسیلات زر کا 80 فیصد بلیک مارکیٹ کے ذریعے آتا ہے

لاہور (جدوجہد رپورٹ) غیر ملکی ترسیلات زر کی خدمات فراہم کرنے والوں کو امید ہے کہ بلیک مارکیٹ پر قابوپانے کے ذریعے پاکستان کے ترسیلات زر سالانہ 50 ارب ڈالرسے تجاوز کر سکتے ہیں، جو اس وقت 27 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ ترسیلات زر کا 80 فیصد ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے غیر قانونی طو رپر بھیجا جاتا ہے۔

’ٹربیون‘ کے مطابق حوالہ اور ہنڈیایک عالمی رجحان ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً 624 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس رقم کا 80 فیصد غیر قانونی ذرائع سے بھیجا جاتا ہے۔

اس طریقے کے تحت بیرون ملک شہری سے ڈالر یا غیر ملکی کرنسی میں رقم وصول کر لی جاتی ہے اور جس ملک میں وہ رقم بھیجنا چاہتا ہے، وہاں مقامی کرنسی میں رقم ادا کر دی جاتی ہے۔ یوں اس ملک میں بنایا گیا غیر قانونی سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو جاتا ہے اور جو غیر ملکی زرمبادلہ ملک میں آنا ہوتا ہے، وہ بھی رک جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی ترسیلات زر کا بہت بڑا حصہ ہنڈی اور حوالہ نیٹ ورک کے ذریعے آتا ہے۔ منی ٹرانسفر کمپنی کے ایگزیکٹو ہیڈ آف فنانس نقاش حافظ کے مطابق حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹس کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، جس میں اب 20 روپے فی ڈالر سے زیادہ کا فرق ہے۔ اتنا بڑا فرق ہمیشہ غیر قانونی نیٹ ورکس کی حولہ افزائی کرتا ہے۔

10 ملین سے زائد پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں اور انکا 65 فیصد باقاعدگی سے اپنے ملک میں رقوم بھیجتے ہیں۔ ترسیلات زر میں گزشتہ مالی سال کی نسبت کمی کو نقاش نے عالمی افراط زر، مقامی سیاسی اور اقتصادی حالات سے منسلک قرار دیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’بہت سے تارکین وطن نے سرمایہ کاری کیلئے رقوم بھیجنے کا سلسلہ روکا ہوا ہے اور وہ سرمایہ کاری کیلئے درست وقت کا انتظار کر رہے ہیں، کچھ تارکین وطن نے رئیل اسٹیٹ جیسے اثاثوں میں سرمایہ کاری کرنا چھوڑ دی ہے اور وہ غیر ملکی کرنسیوں میں سرمایہ کاری کا انتخاب کر رہے ہیں، جس نے ایک سال میں تقریباً 33 فیصد منافع کما کر دیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts