نقطہ نظر

’مارکس سے خائف لوگ‘

عمر عبداللہ

’مارکس سے خائف لوگ‘ ایک انتہائی دلچسپ کتاب ہے، جو پاکستانی سماج، اسکی سیاست، ریاست، پاپولر کلچر اور صحافت کا مارکسی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتی ہے۔ مختلف تبصروں کے اس مجموعے کے مصنف عامر رضا کا کمال یہ ہے کہ وہ دقیق تھیوریٹکل سوالوں پر بحث کوانتہائی آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں، یا یوں کہیں کہ یہ کتاب مصنف کی گہری سماجی نظراور داستان گوئی کی باکمال صلاحیتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ جس میں حکمران طبقات کی طرف سے تخلیق کردہ بیانیوں کو ڈی کنسٹرکٹ کرتے ہوئے مذہب، نظریے اورسیاست کو پرکھنے کا ایک متبادل نقطہ نظرپیش کیا گیا ہے۔

مارکس یہ سمجھتا تھا کہ حکمران طبقات صرف ریاستی جبر کے ذریعے ہی اپنی حاکمیت قائم نہیں کرتے بلکہ انکا سب بڑا ہتھیار انکا نظریہ ہوتا ہے، جسے وہ سکول، نصاب، مذہب،آرٹ اور کلچر کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں مسلسل تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ اس نقطے کو عامر رضا نے پاکستانی سماج کے نتاظر میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے مضمون ’انقلاب کے سوڈا واٹر‘ میں مصنف کو سٹوڈیو کی فیض احمد فیض کی نظم’ہم دیکھیں گے‘ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کارپوریٹ میڈیا کی اس بھونڈی واردات کو بے نقاب کرتے ہیں کہ کس طرح نظم میں موجود حریت کے درس کو یکسر ختم کر کے اسے ایک ہومیوپیتھک صوفی رنگ میں ڈھال دیا گیا۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ جدوجہد کے ایڈیٹر اور بی این یو کے اسسٹنٹ پروفیسر فاروق سلہریالکھتے ہیں ’ ’کوک سٹوڈیو‘ جب فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پیش کرتا ہے تو اسکی روح گھائل ہوجاتی ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے؟عامر رضا کی یہ فکر انگیز کتاب اس عمل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہی نہیں لباس کی سیاسی معیشت سے لے کر خیرات کے سماج پر نظریاتی اثرات تک، وہ ثقافت کے مختلف پہلوں کا مارکسی عدسہ لگا کر شاندار جائزہ لیتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ سرمایہ داری صرف ایک نظام پیداوار نہیں بلکہ ثقافتی سطح پر سماجی ری پروڈکشن بھی اسکا ایک اہم جزو ہے۔“

کتاب میں شامل مصنف کاصحافت اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں پروفیشنل تجربہ اور ٹھوس تحقیق اس کتاب کو آنے والی نسلوں بالخصوص میڈیا سٹڈیز کے طالب علموں کے لیے ان موضوعات پرایک پائنٹ آف ریفرنس بنا دیتی ہے۔ اس ملک میں ایسا لیٹریچر بہت کم ہے، جو کنٹمپریری میڈیا تھیوری کو مقامی حالات پر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو۔ مصنف بڑی مہارت کے ساتھ کارپوریٹ میڈیا کی واردات کو بے نقاب کرتا ہے اور ٹھوس دلائل اور مثالوں سے واضح کرتا ہے کہ میڈیا کے اندر ایک منظم انداز میں مزدوروں کے بیانے اور متبادل نظریات کو نا صرف دبایا جاتا ہے بلکہ انہیں ولینائز کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ کیسے ایڈیٹر اور مالکان کی ملی بھگت سے کنززیومر کو محور بنا کر ایساماحوال پیدا کیا جا تا ہے کہ جہاں خبر کی فریمنگ ہی ایسے کہ جاتی ہے کہ مزدور کام چور اور انتشاری نظر آتا ہے۔ مزدروں کی ہڑتال سے شہریوں کی پریشانی کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا تا ہے، مگر مزدور ہڑتال کیوں کر رہے ہیں اسکا ذکر تک نہیں ہوتا۔ کم و بیش ایسی ہی صورت حال انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں نظر آتی ہے۔

کتاب میں سینما کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اور پاکستانی، ہندوستانی، سوویت اور عالمی سینما پر متعدد بلاگز شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں فلموں کے ریویو،سینما کی تاریخ اور سینسر شپ جیسے موضوعات کو زیر بحث لا گیا ہے اور سینما کی اہمیت اور اس ملک میں اسکے مستقبل کا ایک خاکہ سامنے لاگیا ہے۔ مضمون ’سنیما، شناخت اور مکالمہ‘ میں مصنف سینما کی اہمیت پر روشنی ڈلتے ہوئے مختصر مگر جامع انداز میں سمندر کو کوزے میں بند کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’کسی قوم کے کلچر، شناخت، پسند ناپسند، جذبات، احساسات، مجموعی رویوں اورنفسیات کی عکاسی سینماکرتا ہے۔ کوئی قوم اپنے اور دوسروں کے بارے میں کیا سوچتی ہے، اسکا عکس بھی سینما سکرین پر ہی نظر آتا ہے۔ فلمیں اپنے عہد کی اہم دستاویزات ہوتی ہیں جو اسکی تاریخ کو محفوظ کر لیتی ہیں۔‘

کتاب کے آخر میں ایک افسانہ ’استاد ججن اور بگلہ‘ بھی شامل کیا گیا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتاہے لیکن کتاب کا آخری بلاگ ’میری آپا‘ ہے، جس میں مصنف نے بہن بھائی کے رشتے پر ہونے والے کسی رجعتی بکواس سے چڑ کر لکھا ہے۔ یہ مصنف کی آپا اور اپنے تعلق پر ایک چھوٹا سا خاکہ ہے۔ یہاں پر عامر رضا اپنے اندر کے منطقی کو کچھ دیر کے لیے خاموش کرا کر اپنا دل نکال رکھ دیتے ہیں۔ یہ خاکہ کتاب میں میرا پسندیدہ بلاگ ہے۔ ہم جس پدر سری سماج میں رہتے ہیں، وہاں اپنی بہنوں کوغیرت اور عزت بنا کر ان سے انکی انسانیت چھین لی جاتی ہے۔ انکے بارے میں لکھنا تو دور کی بات ہم انکا نام تک لینے سے قاصر ہیں، لیکن مصنف اس خاکے کے ذریعے اس دقیا نوسیت کواتنی معصومیت اور سچائی کے ساتھ اکھاڑ کر پھنکتا ہے کہ پڑھنے والاجذبات سے بھر آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جیسے مصنف یہ کہتا ہے کہ وہ اس بحث کا شکر گزار ہے کہ جس نے اسے اپنی بہن کے بارے میں کچھ لکھنے کا موقع دیا، اسی طرح ہم مصنف کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اپنے قلم سے ہمارے ان جذبات کی ترجمانی کی جوشاید کہیں دفن ہو چکے تھے۔

بقول لینن مارکسزم ناقابل تسخیرصرف اس لیے ہے کہ وہ سچ ہے۔ وہ سچ اس لیے نہیں ہے کہ وہ کوئی الہامی یا آفاقی ہے، بلکہ سچ اس لیے ہے کہ وہ اس نظام کے ہر کھلے عام اور پوشیدہ جبر کو کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے اور پھر آپ کے پاس اسکے خلاف جدوجہد کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ ’مارکس سے خائف لوگ‘ مارکسی نظریات کوعام لوگوں تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے لیکن اسکے ٹائٹل سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید مصنف ان لوگوں سے مخاطب ہے جو مارکس سے بدظن ہیں۔ ہم اس کوشش کو خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ مارکس سے خائف نہیں بلکہ اس کے نظریات کی سچائی سے خوف زدہ ہیں اور ہتھیلی کے پیچھے سورج چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھ کر ان لوگوں کے دل مارکسزم کے نظریات کی طرف نرم ہوتے ہیں یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن آنے والی نسلوں کی اس وحشی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں یہ کتاب ایک ہتھیار ہے۔

(نوٹ: یہ کتاب مشال پبلشرز ((03006668284 اور طبقاتی جدوجہد دفتر 16-A تھرڈ فلور تاج محل پلازہ 6th روڈ راولپنڈی ((03335358516 پر دستیاب ہے)۔

+ posts