خبریں/تبصرے

سمندری طوفان: نقل مکانی کرنیوالے دیہاتیوں کو کن نقصانات کا خدشہ ہے؟

لاہور (جدوجہد رپورٹ) سمندر طوفان بیبرجوائے کے پیش نظر پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت کے قائم کردہ درجنوں امدادی کیمپوں میں ہزاروں افراد پہنچ چکے ہیں۔ صوبہ کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بسنے والے 80 ہزار سے زائد لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر طوفان سے بچنے کیلئے ان حکومتی کیمپوں میں منتقل کئے گئے ہیں۔

تاہم ان نقل مکانی کرنے والے شہریوں کو جہاں اپنے گھر بار اور سازو سامان کے تباہ ہونے کا خدشہ ہے، وہیں ماہی گیری کے پیشے سے منسلک افراد کا دکھ دہرا ہے۔ وہ مستقبل میں روزی روٹی کا انحصار چھن جانے کے خدشات سے بھی دوچار ہیں۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق ماہی گیر مرتضیٰ جاتی اور ان کی اہلیہ اپنے ساتھ ضروری سامان لے کر اپنے گاؤں سے امدادی کیمپوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ کیا جب وہ طوفان تھمنے کے بعد اپنے گاؤں لوٹیں گے تو ان کی ماہی گیری کی کشتی بھی اس وقت محفوظ اور موجود ہوگی یا نہیں؟

انکا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اپنی کشتی چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میری روزی روٹی کا انحصار اسی پر ہے۔ حکومت نے 10 جون کو ہمیں بتایا کہ سمندری طوفان کے ختم ہونے تک واپس سمندر میں نہ جائیں اور 3 دن بعد گاؤں کے لوگوں کو انخلاء کیلئے مطلع کر دیا گیا۔‘

30 سالہ ماہی گیر کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ اگر طوفان ان کی کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو وہ اور گاؤں والے کیا کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ ’ایک کشتی کی تعمیر پر 4 لاکھ روپے سے زیادہ لاگت آتی ہے اور اگر طوفان میری کشتی یا گاؤں کے دیگر ماہی گیروں کی 20 سے 25 کشتیوں کو تباہ کردیتا ہے تو میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہم کیا کرینگے۔‘

ایک اور ماہی گیر علی محمد نے بتایا کہ انہیں بھی اپنا زیادہ تر سازوسامان پیچھے چھوڑنا پڑا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جب وہ گاؤں نکلے تو انہیں یہی فکر تھی کہ طوفان کے بعد جب وہ گھر لوٹیں گے تو کیا باقی رہے گا۔ خاص طور پر مرغیاں جو انہوں نے پیچھے چھوڑ دی ہیں۔

ماہی گیروں کے حقوق کی تنظیم پاکستان فشر فوک فورم سے وابستہ سماجی کارکن نور محمد تیمور نے 18 افراد کے کنبہ کے ہمراہ ایک سرکاری سکول میں پناہ لے رکھی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ’ہمیں کچھ بھی پیک کرنے کیلئے وقت ہی نہیں ملا۔ ہم نے ابھی کچھ راشن اور برتن، کچھ بستر کی چادریں اور فون چارج کرنے کیلئے اپنا سولر پینل اور بیٹری اٹھائی، باقی سب کچھ خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے۔‘

حکومتی کیمپوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ رات کے وقت عارضی بجلی بھی دیتے ہیں، جو ہمیں کچھ روشنی کے بلبوں کو آن رکھنے میں مدد دیتی ہے، لیکن کوئی پنکھا نہیں ہے۔ تیز ہوا اور وقفے وقفے سے ہونے والی بارش کی وجہ سے گرمی کا زور اس طرح نہیں ہے۔ اس لئے ہم گزارہ کر رہے ہیں۔

51 سالہ نور محمد تیمورنے 1999ء میں سمندری طوفان سے کیٹی بندر میں ہونے والے نقصان کو بھی یاد کیا۔ اس طوفان کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں 6200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہی وہ علاقہ ہے، جس میں بپر جوئے کے بھی ٹکرانے کا امکان ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہم نے صرف اپنے گاؤں کے 400 سے زیادہ ماہی گیروں کو کھو دیا تھا۔ تب بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ اب ہم یہاں بیٹھے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں۔ صرف اس امید پر کہ ہم اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اور انہیں کھڑا پائیں گے۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts