ٹونی عثمان
پاکستان میں بعض انتہائی ہائی پروفائل والے اجتماعی ریپ کیسز ہیں، جن کے مجرمان پیسے اور اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے عدالتی نظام کا مذاق اُڑاتے ہوئے آزاد گھومتے ہیں۔ ویسے تو ایسے بیشمار کیسز ہیں، جو کسی بھی طرح انصاف کے نظام کے لئے مثبت نہیں مگر اس مضمون میں صرف تین کیسز کے متعلق لکھا گیاہے۔
13 مئی 1978 ء کو فلمی اداکارہ شبنم کا لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں ان کے گھر میں انکے شوہر میوزک کمپوزر روبن گھوش اور ان کے بیٹے کے سامنے گینگ ریپ کیاگیا۔ مجرمان وہاں سے نقدی، زیورات اور دیگر گھریلو سامان لے کر فرار ہوگئے۔ اداکارہ شبنم نے مقدمے میں 7 افراد کو نامزد کیا تھا، جن میں محمد فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، جمیل احمد، طاہر تنویر، جمشید اکبر ساہی، آغا عقیل احمد اور محمد مظفر شامل ہیں۔ ان سب کا تعلق بااثر خاندانوں سے تھا۔ اس وقت کے چیف سیکریٹری پنجاب فتح خان بندیال ریپ کرنے والے محمد فاروق بندیال کے ماموں اورموجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے والد تھے۔ ملزمان مقامی پولیس پر اثر انداز ہونے میں کامیاب رہے اور ابتدائی رپورٹ میں گینگ ریپ کا ذکر نہ ہونے دیا۔ ملزمان پر خصوصی فوجی عدالت نے دفعہ 412 PPC کے تحت مقدمہ چلایا اورفاروق بندیال اور دیگر 4 افراد کوڈکیتی کے جرم میں سزائے موت سنائی، مگر بعد میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا اور کُچھ عرصہ بعد پانچوں مُجرمان کو رہا کر دیاگیا۔
قارئین کو بتاتے چلیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی بلاک بسٹر ثابت ہونے والی ہدایتکار نذرالاسلام کی فلم”آئینہ“ 401 ہفتوں تک سینما گھروں میں متواتر چلتی رہی۔ اس کی ہیروئن شبنم تھیں اور میوزک ڈائریکٹراُن کے جیون ساتھی روبن گھوش تھے۔ شبنم نے کُل 170 فلموں میں کام کیا، جن میں 152 اردو، 14 بنگالی اور 4 پنجابی فلمیں شامل ہیں۔
فاروق بندیال نے 2018 ء میں عمران خان کی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن اسی دن چند گھنٹوں کے اندر سوشل میڈیا کے باعث مسلح ڈکیتی اورگینگ ریپ میں ملوث ہونے کی خبریں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئیں۔ عوام کے بڑھتے ہوئے غم و غصے نے عمران خان کو مجبور کردیا اور انہوں نے فاروق بندیال کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ پی ٹی آئی کے راہنما نعیم الحق (مرحوم) نے فوری طور پرٹویٹرپر فیصلے کا اعلان کیا۔ اُنہوں نے ٹویٹ کیا کہ ”ہماری پارٹی میں ایسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بندیال کو کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہونا چاہیے۔“ فاروق بندیال موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے کزن ہیں۔ اپریل 2022ء میں جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں چیف جسٹس نے رات کے 12 بجے عدالت کھول دی اور عمران خان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تو پی ٹی آئی نے چیف جسٹس پر غم وغُصہ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فاروق بندیال سے رشتہ داری کو بھی ہائی لائٹ کیاتھا۔
دوسرا انتہائی شرمناک کیس 1991 ء کا ہے۔ مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی آئی اے) کے اراکین نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت کی قیادت میں 27 نومبر کو کراچی ڈیفنس میں وینا حیات کے گھر میں گھُس کر ان کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔ وینا حیات بزرگ مسلم لیگی راہنما سردار شوکت حیات کی بیٹی تھیں، جو قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھی اور پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رُکن تھے۔ وینا حیات پیشے کے اعتبار سے ڈریس ڈیزائنر تھیں اور انکی پیپلز پارٹی کی راہنما بینظیر بھٹو کے ساتھ دیرینہ دوستی تھی۔ اس وقت عرفان اللہ مروت سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے مشیر برائے امور داخلہ کے طور پر کام کر رہے تھے اور صوبائی اسمبلی کے رکن تھے۔ پولیس نے ویناحیات کی شکایت پر تب تک ایف آئی آر درج نہ کی جب تک اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز نے مداخلت نہ کی۔ ویناحیات کے والد شوکت حیات نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرفان اللہ مروت کو عہدے سے ہٹانے اور ان کی بیٹی سے اجتماعی ذیادتی کرنے والوں کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ سندھ حکومت نے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی عدالتی ٹربیونل قائم کیا۔ 12 دسمبر 1991 ء کو ٹربیونل نے کراچی میں اپنی انکوائری شروع کی۔ چند مشتبہ افراد کو پولیس نے پہلے ہی گرفتار کر لیا تھا۔ وینا اور اُن کے والد شوکت حیات، دونوں نے، ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیاتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک عرفان اللہ مروت صوبائی حکومت کا حصہ ہے، منصفانہ ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ بے نظیربھٹو، جو اس وقت اپوزیشن لیڈر تھیں، اس کیس کو قومی اسمبلی کے فلور پر بحث کے لیے لائی تھیں۔
اسی سال 29 دسمبر کو ٹربیونل نے اپنے انتہائی متوقع فیصلے کا اعلان کیا اور کہا کہ مروت کے خلاف ویناحیات کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں۔ اخبارات نے فیصلے پر بہت شور مچایا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے انصاف کے لئے آوازیں بلند کیں مگر وینا حیات کو انصاف نہ ملا اور وہ دلبرداشتہ ہو کر ہمیشہ کے لئے بیرون ملک منتقل ہوگئیں۔ صدر غلام اسحاق خان کی اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ تلخ کلامی تھی اور کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کے باعث تلخ کلامی میں مزید اضافہ ہوا اور 1993 ء میں دونوں کو اپنے اپنے منصب سے جانا پڑا۔
2013 ء کے انتخابات میں عرفان اللہ مروت نُون لیگ کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور 2017ء میں آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ تاہم بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی دونوں بیٹیوں بختاور اور آصفہ کے طرف سے بے ساختہ اورشدید ردعمل آنے کے بعد وہ پارٹی سے الگ ہوگئے۔ بختاور بھٹو زرداری نے ٹویٹ کیاکہ ”ایسے آدمی کو جیل کی کوٹھری میں سڑتا ہوناچاہیے۔ جس پارٹی کی قیادت ایک خاتون نے کی ہو وہ پارٹی ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کرے گی۔“ آصفہ بھٹو زرداری نے ٹویٹرپر لکھا کہ ”مسٹر عرفان اللہ مروت کو پی پی پی میں نہیں ہونا چاہیے۔ پی پی پی کی بنیادی اقدار خواتین کا احترام ہے!“ پاکستان کے معروف صحافی مظہر عباس نے روزنامہ“دی نیوز”میں شائع ہونے والے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ”آصف علی زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن بننے کے بعد پہلی دفعہ اتنی سیاسی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔“بقول اُن کے زرداری 1990ء سے 1993ء تک مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران عرفان اللہ مروت کے انتہائی متنازعہ کردار سے بخوبی واقف تھے۔ عرفان اللہ مروت نے اپنی صفائی میں کہا کہ ویناحیات کیس سے متعلق الزامات غلط ہیں اور آصف زرداری کی بیٹیوں کو ورغلایا گیا ہے۔
قارئین کی معلومات کے لئے بتاتے چلیں کہ پاکستان کے بہترین ہدایتکار نذرالاسلام نے اس ریپ کے واقعہ پر مبنی اردو فلم ”خواہش“ بناکر 1993 ء کے آخری مہینے میں ریلیز کی تھی۔ اسے جزوی طور پر ایک آرٹ مُووی کے طور پر بنایا گیا تھا اور اس میں صرف 2 گانے تھے۔ فلم بینوں نے اسے پسند نہ کیا اور یہ چند روز بعد ہی سینما سے اتار دی گئی تھی۔
تیسرا انتہائی شرمناک اورخوفناک واقعہ پرویز مشرف کے دور میں پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں اُس وقت ہوا،جب 12 سالہ عبدالشکور کو تین مرد اغوا کر کے گنے کے کھیت میں لے گئے، جہاں اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ جب لڑکے نے اس واقعے کے بارے میں خاموش رہنے سے انکار کیا، تو اسے عبدالخالق نامی ایک شخص کے گھر میں قید کر دیا گیا۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو عبدالشکور پر الزام لگایا گیا کہ اس کے عبدالخالق کی بہن سلمیٰ نسین، جو اس سے 15 سال بڑی تھی، کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔ قبیلے کی پنچائت نے حکم دیاکہ سزا کے طور پر عبدالشکور کی 30 سالہ بہن مختاراں مائی سے اجتماعی زیادتی کی جائے۔ گینگ ریپ کے بعد مختاراں مائی کو عریاں کرکے سارے گاؤں کے سامنے گھمایا گیا۔جب اس واقعہ کو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں اٹھایاگیا، تو یکم ستمبر 2002 ء کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 مردوں (4 ریپ کرنے والوں سمیت) کو زیادتی کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ تاہم 2005 ء میں لاہور ہائی کورٹ نے 6 میں سے 5 کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کر دیا اور چھٹے آدمی کی سزائے موت کو عمر قید کی سزا میں تبدیل کر دیا۔ متاثرہ خاتون مختاراں مائی نے اپیل دائر کی مگر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ملزمان کو بری کردیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے بہت سے پاکستانیوں خصوصاً انسانی حقوق کے کارکنوں کو حیران اور مایوس کیا۔
19 جون 2005 ء کو نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ مختاراں مائی جب اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے اپنے پاسپورٹ پر امریکی ویزا کی مہر لگوا کر آئیں، تو مشرف کی حکومت نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔ جب پاکستانی اخبارات نے حکومت کے اقدام کو احمقانہ قرار دے کر مشرف کے ”لبرل عقائد“ کا مذاق اُڑایا، تب 27 جون 2005 ء کو مختاراں مائی کا پاسپورٹ اُنہیں واپس کر دیا گیا۔
2006ء میں مختاراں مائی کی سوانح عمری فرانس میں شائع ہوئی، جس کا اب تک 23 زبانوں میں تر جمہ شائع ہو چکا ہے۔ فوجی آمر پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ان جیسی خواتین مغرب کو خوش کرنے اور پاکستان سے باہر جانے کے لیے اپنے ساتھ زیادتی کرواتی ہیں۔ مُختاراں مائی تو آج بھی پاکستان میں رہ رہی ہیں، مگر پرویز مشرف صدارت کے عہدے سے ہاتھ دھونے کے بعد پاکستان کو چھوڑ گئے اور مرنے کے بعد ہی تابوت میں واپس پہنچے۔ پرویز مشرف نے اپنے ذاتی بلاگ پر اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے 2005ء میں مختاراں مائی کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کیں، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ان کے کام اور نام کی پذیرائی سے پاکستان کے بین الاقوامی امیج کو نقصان پہنچے گا۔