تاریخ

ممتاز صحافی حفیظ ظفر وفات پا گئے

فاروق سلہریا

ممتاز صحافی حفیظ ظفر گذشتہ روز وفات پا گئے۔ وہ لگ بھگ چالیس سال پیشہ صحافت سے وابستہ رہے۔ گو گذشتہ کچھ عرصے سے وہ اردو روزنامہ ’دنیا‘ سے وابستہ تھے مگر وہ انگریزی زبان میں ہونے والی لاہوری صحافت میں نیوز روم لیجنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔

انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز ’پاکستان ٹائمز‘ سے کیا (ان کے والد بھی پاکستان ٹائمز سے وابستہ تھے)، پھر وہ روزنامہ ’دی نیشن‘سے وابستہ ہوگئے۔ لگ بھگ بیس سالہ اس وابستگی کے بعد وہ ’دی نیوز‘سے منسلک ہو گئے۔ آخری دس سال وہ گاہے بگاہے بے روزگار رہے یا بے روزگاری مسلسل ایک خوف کا سایہ بن کر اُن کا پیچھا کرتی رہی۔ آخری چند سال، ان کو صحت کے مسائل کا سامنا تھا۔

میرا ان سے تعارف نوے کی دہائی میں ہوا۔ ان دنوں وہ پریس کلب لگ بھگ روزانہ ہی چکر لگاتے۔ بعد ازاں جب میں نے ’دی نیشن‘ کے نیوز روم میں کام کرنا شروع کیا تو ان سے باقاعدہ دوستی ہو گئی۔ اپنے دوستوں کے حلقے میں انہیں سب چیف کہہ کر پکارتے۔

کام کرنے کے معاملے میں کسی جن سے کم نہ تھے۔ دو سب ایڈیٹرز جتنا کام کرتے۔ انگریزی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ ہم جیسے جونیئر سب ایڈیٹرز کو اگر اصلاح لینا ہوتی تو حفیظ ظفر سے رجوع کرتے۔ رات کی شفٹ ختم کرنے کے بعد، مال روڈ، مزنگ، ان سی اے کے باہر بعض ڈھابوں پر دوستوں کے ساتھ بیٹھے رہتے۔ کبھی کبھار دوستوں کے اصرار پر پریس کلب چلے آتے۔

ان کی موجودگی میں نیوز روم تھا یا پریس کلب، مسلسل قہقہے پھوٹتے۔ فلموں اور کرکٹ کا انسائکلوپیڈیا تھے۔ کسی فلم کا نام لے لیجئے، وہ فلم کی کاسٹ سے لے کر اس کے ہدایت کار اور نغمہ نگار تک…سب کی تفصیل بتا دیتے تھے۔ یہی حال کرکٹ کا تھا۔ کسی ٹسٹ میچ کا ذکر، کسی کھلاڑی کا ریکارڈ…سب کمپیوٹر کی طرح ازبر تھا، حتیٰ کہ بعض تاریخی میچوں کے موقع پر اخبارات میں لگائی گئی سرخیاں تک یاد تھیں۔

جب سرفراز نواز نے آسٹریلیا میں سات وکٹس لے کر پاکستان کو جیت دلوائی تو کسی عالمی اخبار میں سرخی لگی تھی: ’Sarfraz: Tora Tora‘

پھر وہ ہمیں بتاتے کہ ٹورا ٹورا کا کیا مطلب ہے (یہ پرل ہاربر پر حملے بارے بنائی گئی فلم تھی جس میں ٹورا ٹورا ایک کوڈ تھا)۔

ادب، بالخصوص اردو ادب،پر بھی گہری نظر تھی۔ بھلے دنوں میں پاک ٹی ہاوس بھی جایا کرتے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس کے بہت سے شاعروں ادیبوں بارے ذاتی قصے سناتے۔ ایک قصہ ان سے کئی بار سنا کہ جب ضیا دور کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت بنی تو کچھ نوجوانوں نے اشفاق احمد سے پوچھا کہ اب آپ کیا کریں گے؟ اشفاق احمد نے جواب دیا کہ میں نے ایک ڈرامہ لکھ رکھا ہے جو بے نظیر بھٹو کے حق میں ہے۔ ترقی پسند خیالات رکھتے تھے۔ ضیا آمریت کے شدید ناقد تھے۔ اس لئے اشفاق احمد کے بھی شدید خلاف تھے مگر اپنے نوجوان ساتھیوں کو تنقید کرتے: ”تم لوگوں کو ’گڈریا‘ضرور پڑھنا چاہئے“۔

شخصیت بالکل درویشانہ تھی۔ شادی نہیں کی۔ آبائی گھر میں بھائی، وحید ظفر، کے ساتھ ہی رہائش پزیر رہے۔ بظاہر کسی سے دوستی نہیں کرتے تھے۔ دوستوں کا محدود حلقہ تھا مگر اپنے دوستوں کی محفل میں ان کی موجودگی میں کوئی بات نہ کر سکتا تھا…ان کے ہوتے ہوئے، نہ ہی کسی دوسرے کی گفتگو میں کسی کو کوئی دلچسپی ہوتی۔ ہم ان سے باقاعدہ فرمائش کرتے کہ چیف فلاں قصہ سنائیں، فلاں واقعہ سنائیں۔ ان کے منہ سے ایک ہی قصہ بار بار سننا ایسے ہی اچھا لگتا جیسے بچپن میں داددی ماں سے ایک ہی کہانی بار بار سننا اچھا لگتا ہے۔ مثال کے طور پر، فلم’مغل اعظم‘بنانے میں کتنے سال لگے اور کیا مسائل درپیش آئے، کس طرح پنڈت نہرو کی مداخلت اور مدد سے یہ فلم مکمل ہو سکی…یہ قصہ ہم نے ان سے کئی بار سنا۔

کل جب ان کی وفات کی خبر ملی تو مجھے ان سے ’دی نیشن‘ کے نیوز روم میں ہونے والی ایک گفتگو یاد آئی۔ ملی جلی اردوانگریزی میں بولے:

”ؒLife is absurd. Ultimately we all die. Death is also absurd…“

ایک ’Absurdity‘ دوسری ’Absurdity‘ کو ختم کر دیتی ہے“۔

بچوں والی معصومیت کے لئے مشہور حفیظ ظفر کبھی بھی موت سے خوفزدہ نہ تھے…وہ ہمیشہ زندگی سے خوفزدہ رہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔