ٹونی عثمان
پاکستانی فلموں کا پاکستانی ثقافت میں ہمیشہ ایک اہم کردار رہا ہے مگر اس کے باوجود فلمی صنعت معقول حکومتی سرپرستی سے محروم رہی ہے۔ خوش قسمتی سے مختلف تخلیقی افراد مُشکلات کاسامنا کرتے ہوئے فلمی صنعت کو آکسیجن مُہیاکرتے رہتے ہیں۔ ایسے افراد میں ایک صائم صادق ہیں۔ اُنہوں نے سکر پٹ لکھنے اور ہدایتکاری کی تعلیم کولمبیا یونیورسٹی سکول آف دی آرٹس سے حاصل کی۔”جوائے لینڈ“ اُن کی پہلی پوری لمبائی والی فیچرفلم ہے۔ اس سے پہلے اُنہیں متعدد مُختصر فلمیں بنانے کا تجربہ ہے۔
”جوائے لینڈ“میں وسطی لاہور میں تین نسلیں ایک ہی مکان میں ایک گُھٹن زدہ ماحول میں زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا مکان ہے جہاں کلاسٹروفوبک احساس ہوتا ہے، جس طرح پاکستان میں غیر یقینی اور گُھٹن محسوس ہوتی ہے۔ گھر کا سربراہ ایک عُمر رسیدہ، رنڈوا، قدامت پسند،”رانا امان اللہ“، یا ”ابا“ (سلمان پیرزادہ)ہے۔ اُس کاشادی شُدہ بیٹا ایک نرم مزاج نوجوان“حیدر”(علی جونیجو) بیروزگار اور بے اولادہے۔ لہٰذا ہر طرح کے گھریلو کام اس کی ذمہ داری ہے۔ مثال کے طور پر اپنی تینوں بھتیجیوں کے ساتھ کھیلنا، گھر کی صفائی ستھرائی کرنا اور وہیل چیئر والے ابا کی مکمل دیکھ بال کرنا۔ جب اس کے بڑے بھائی”سلیم“(سہیل سمیر) اور بھابھی”نُوچی“(ثروت گیلانی) کے ہاں چوتھے بچے کی پیدائش کا وقت ہوتا ہے تو وہ ہی اپنی بھابھی کو زچگی کے لئے ہسپتال لے کر جاتاہے۔ حیدر کی بیوی”ممتاز“(رستی فاروق) کو اولاد کی کوئی خواہش نہیں، وہ ایک میک اپ آرٹسٹ ہے اور خوشی سے ایک بیوٹی پارلر میں ملازمت کرتی ہے۔ حیدر کام تلاش کرنے کی کوشش کرتاہے مگر اُسے کوئی ”قابل احترام“کام نہیں ملتا۔ ایک دن اُسے ایک دوست کے ذریعے ایک تھیٹر میں رقاص کا کام مل جاتا ہے۔ حیدر اپنے ابا سے سچ بولنے کی ہمت نہیں رکھتا اس لئے گھر والوں کو وہ کہتا ہے کہ اسے تھیٹر کے منیجر کاکام مل گیاہے۔ ابا کے ذہن میں تھیٹر کے خلاف تعصب پایاجاتا ہے۔لہٰذا اسے تھیٹر لفظ سے ہی چڑ ہے مگر وہ ماہانہ تنخواہ 40ہزار روپے کا سُن کر عارضی طور پر خاموش ہوجاتاہے۔ حیدر کاکام ایک مقامی تھیٹر کی سٹار، مُتجَنّس عورت یعنی ٹرانس جینڈر عورت”بیبا“(علینہ خان) کے پیچھے رقص کرنے والے 6 ایکسٹراز میں سے ایک ہے۔ اس کے لئے بیبا اسکی تربیت کرتی ہے اور کُولہوں اور حساسیت کو ڈھیلا کرنا سکھاتی ہے۔ حیدر اپنے کام کے متعلق اپنی بیوی کو اعتماد میں لیتا ہے اور اسکی بیوی کو خوشی ہوتی ہے۔ اب ابا چاہتا ہے کہ ممتاز کام چھوڑ کر گھریلو فرائض سنبھالے۔ وہ انکار کرتی ہے تو ابا حیدر کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کام چھوڑنے کا کہے۔ ممتاز حیدر کے کہنے پر کام تو چھوڑ دیتی ہے مگر بہت دُکھ کے ساتھ۔ جنسیت کے بارے میں سادہ لوح تصورات رکھنے والے حیدر اور بیبا کے درمیان قُربت بڑھتی ہے تو ان کے درمیان لرزنے والی رومانوی اُلجھنوں کی وجہ سے اسکی اپنی گھریلو زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ابا کی 70 ویں سالگرہ کی پارٹی کے موقع پر ممتاز ٹوائلٹ میں مردہ پائی جاتی ہے۔
فلم کی مرکزی کردار ایک مُتجَنّس عورت، بیبا ہے۔ سنہ 2019 میں ہدایتکار صائم صادق نے علینہ خان کے ساتھ 16 منٹ کی ایک مختصر فلم“ڈارلنگ”بنائی تھی۔ اس میں علینہ خان نے”علینہ ڈارلنگ“کا جو کردار کیا تھا بیبا اُسی کردار کا تسلسل ہے۔ علینہ خان پہلی ٹرانس جینڈر شخصیت ہیں جنہوں نے کسی بڑی پاکستانی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس سال مئی میں انہیں لاہور میں ”مس ٹرانس پاکستان 2023“کا تاج پہنایا گیا تھا۔ تاہم”جوائے لینڈ“ کو محض خواجہ سراؤں کے حقوق اور LGBTQ برادری کے مسائل اور چیلنجز کے تناظر میں نہیں دیکھاجاسکتا۔ اس لئے کہ یہ فلم انسانی نفسیات، محبت کی اُلجھنوں، معاشرتی تعصبات، نسوانیت بمقابلہ مردانگی،ممنوع خواہشات، صنفی دقیانوسی تصورات اور شناخت کی تلاش کے متعلق ہے۔ لہٰذا اسے سماجیات کے نقطہ نظر اور مُلکی حالات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔فلم کا سکرپٹ صائم صادق نے امریکی نژاد میگی بریگز کے ساتھ ملکر اتنی دیانتداری اور مہارت سے لکھا ہے کہ ہر منظر پاکستانی سماج کی بہت واضع عکاسی کرتاہے۔ مثال کے طور پر ممتاز ایک شادی میں دُلہن کا میک اپ کر رہی ہوتی ہے،تو لوڈ شیڈنگ کے باعث بجلی چلی جاتی ہے اور اسے اپنے موبائل کی ٹارچ کا استعمال کرکے کام مکمل کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جب ابا نے صدقے کے لئے ایک کالے بکرے کا انتظام کیا ہوتا ہے تو ذبح کے وقت قصاب نہیں پہنچتا۔ جب اُسے فون کیا جاتا ہے تو وہ فون بھی اٹینڈ نہیں کرتا لہٰذا ابا اپنے بیٹے حیدر کو حکم دیتا ہے کہ وہ چھُری پھیرے۔ حیدر نہ چاہتے ہوئے بھی بکرے کو ذبح کرتا ہے۔
فلم دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہدایتکار صائم صادق فلم سازی کے ہر تخلیقی پہلو کی باریکیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور پاکستانی ثقافت اور اندرون لاہور کے ماحول سے واقف ہیں۔ لبنانی نژاد سنیماٹو گرافر، جو سعادہ کی فوٹوگرافی بہت خوبصورت ہے اور ہر فریم فنکارانہ بصیرت سے بھر پور ہے۔ کیمرہ مین کی فن تعمیر سے دلچسپی کی وجہ سے اندرون لاہور کے مکانوں کی منظر کشی فلم کو حقیقت کے قریب لانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ رنگوں کی درجہ بندی، لائٹنگ، فلمبندی کے لئے مقامات کا درست انتخاب، پروڈکشن ڈیزائن اور ساؤنڈ ڈیزائن نے فلم کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ بعض مناظر فنکارانہ طور پر انتہائی دلکش ہیں۔ مثلاً مرنے کے بعد آخری رسومات جن میں غُسل وغیرہ ہیں، ابا اور قابل احترام پڑوسی خاتون”فیاض“(ثانیہ سعید) کے درمیان تجریدی محبت کا منظر، نُوچی اور ممتاز کا جوائے لینڈ نامی تفریحی پارک میں جھُولے پر وہ دلکش منظر جہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو اس طرح سمجھتی ہیں جیسے ان کے شوہر انہیں کبھی نہیں سمجھیں گے،اور بیبااور حیدر کا جذباتی انداز میں بوسہ لینے والا منظر۔ کرداروں کی بولی اور لہجے پر بھی بہت خیال رکھا گیا ہے۔ اردو اور پنجابی کو لاہوریوں کے مخصوص انداز میں بولا گیا ہے۔ فلم کے چار پرڈیوسرز میں سے ایک سرمد کھُوسٹ ہیں، جو بولی اور لہجہ کے کوچ بھی ہیں۔ ہدایت کار صائم صادق نے حساس موضوعات پر ایک ایماندار، خوبصورت اور بصری طور پر جاندار اور حقیقت پسند فلم بنائی ہے۔ مارکٹائی کے مناظر سے پاک یہ فلم تشدد، افراتفری اور گُھٹن والے معاشرے میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی مانند ہے۔
”جوائے لینڈ“کو پاکستان میں جب گزشتہ سال نومبر میں ریلیز کیا جانا تھا،تو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے فلم پر”پاکستانی اقدار کے خلاف“ ہونے کا الزام عائد کر کے فلم کو متنازعہ بنادیا۔ سنسر بورڈ کی جانب سے سنسر سرٹیفکیٹ ملنے کے باوجود، پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے فلم پر پابندی کا اعلان کر دیا۔ اس کے لئے اُس وقت کی پی ڈی ایم کی حکومت نے”موشن پکچر آرڈیننس 1979“کا سہارا لیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ آرڈیننس جنرل ضیاء کی حکومت نے اسلامائزیشن، قومی سلامتی اور عوامی اخلاقیات کے تحفظ کے نام پر فلمی صنعت کو کنٹرول کرنے کے لئے نافذ کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر فلم پر پابندی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
فلم کا مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ علینہ خان نے کہاکہ ”فلم میں اسلام کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اسلام مزید فلموں سے کیسے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔“ ماہر طبیعات اور دانشور پرویز ہودبھائی نے کہا کہ لوگ یہ فلم دیکھے بغیر اس پر پابندی کی حمایت کر رہے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی فلم پر پابندی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ پھر اُس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف کے اسٹریٹجک ریفارمز کے سربراہ سلمان صوفی نے اعلان کیا کہ فلم کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے معمولی کٹوتیوں کے ساتھ اس کی ریلیز کی منظوری دے دی ہے۔
سنسر شپ کا نشانہ بننے کے بعد فلم کا پریمیئر پاکستان کے کچھ حصوں میں 18 نومبر 2022 کو اس کی منصوبہ بند ریلیز کی تاریخ پر ہوا۔ سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب کے اس وقت کے صوبائی وزیر ثقافت ملک تیمور مسعود نے میڈیا کو بتایا تھا کہ فلم کے بارے میں دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے کچھ تحفظات ہیں۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ پنجاب میں فلم پر پابندی اب بھی برقرار ہے۔
اس فلم کو متعدد عالمی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے اور فرانس کے شہر کانز میں جب اس کا ورلڈ پریمیئر ہوا تھا تو فلم دیکھنے والوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجاکر داد دی تھی۔ یہ فلم آئندہ برس جنوری میں ناروے کے شہر تھرومسعو میں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دکھائی جائے گی۔