تاریخ

مینڈل کے سو سال: ’مارکسٹ اکنامک تھیوری‘ اور ’لیٹ کیپٹلزم‘

ایرک توساں

(ایرک توساں عالمی شہرت یافتہ مارکسی معیشت دان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ ان کی وجہ شہرت عالمی قرضوں کے خلاف ان کی مہم اور تحقیق ہے۔ قرضوں کے موضوع پر وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتابیں مثلاً ’یو ر منی اور یور لائف‘ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کا شمار فورتھ انٹرنیشنل کے اہم رہنماوں میں بھی ہوتا ہے۔ فورتھ انٹرنیشنل کے اہم رہنما، عالمی شہرت یافتہ معیشیت دان اور ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے ایک اہم نظریہ دان ارنسٹ مینڈل کے سو سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ایرک توساں نے مندرجہ ذیل مضمون تحریر کیا ہے جسے سلسلہ وار پیش کیا جا رہا ہے)

پہلا حصہ

مینڈل کی شہرہ آفاق کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘:

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘مارکسی معیشت کے ان مقالوں کا متبادل فراہم کرتی ہے، جو اس زمانے کے مارکسسٹ یا کمیونسٹ مفکرین کے درمیان غالب تھے۔ یہ مقالے سیاسی معاشیات پر مضامین اور درسی کتابیں تھیں، جو سوویت یونین سے آئی تھیں، یا بیجنگ میں تیار کی گئی تھیں۔ وہ نظریہ اور طریقہ کار کے لحاظ سے کٹر اور ناقص فکر پر مبنی تھیں۔’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘1962-1963میں فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی تھی۔

یہ کتاب ایک جینیاتی نقطہ نظر کی پیروی کرتے ہوئے انسانی تاریخ میں انسان تہذیب کے ابتدائی معلوم مراحل کے پس منظر میں یہ کھوج لگانے کی کوشش تھی کہ انسانی تعلقات کیسے ارتقاء پذیر ہوئے اور کس طرح مختلف معاشروں نے اپنی معیشتوں کو مختلف حصوں میں تعمیر کیا۔ تنقیدی مارکسسٹوں کیلئے یہ واضح ہے کہ ایسے 5یا 6مراحل نہیں ہیں، جن سے معاشرے گزرے ہیں۔قدیم کمیونزم سے لے کر غلامی پرعمل کرنے والے معاشروں تک، جاگیرداری سے چھوٹے پیمانے پر تجارتی پیداوار تک، سرمایہ داری اور آخر میں سوشلزم، حتیٰ کہ کمیونزم تک، ان مراحل کا یہ نظریہ جس سے تمام معاشرے گزرے ہیں، مارکس کیلئے اجنبی تھا۔ مینڈل نے بھی مارکسی نظرئیے کو آگے بڑھایا۔

یہ بات مارکس کے 1850-1860تک کے کاموں (گرنڈریز اور دیگر تحریروں)اور خاص طور پر 1881میں وِیرا زاسولچ(Vera Zasulich)کے ساتھ مارکس کی خط و کتاب سے واضح ہے۔

ارنسٹ مینڈل کے عہد تک جو مارکسزم رائج تھا، مینڈل کی اس کتاب نے اس سے خوب کشید کیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اکیلا نہیں تھا، لیکن ایسے لوگ بہت زیادہ نہیں تھے، جنہوں نے یہی انداز اپنایا۔اس طریقہ کار کی وجہ سے پوری نسل پر اسکا زبردست اثرہوا۔ یہ نسل1963-1964سے 1968کے دورمیں سامنے آئی۔ یہ مجھ سے پہلے کی نسل تھی۔ میں خود بھی68کی نسل سے تعلق رکھتا ہوں اور ہم اس قدر خوش قسمت تھے کہ ہم نے انقلاب کو ایجنڈے پر واپس لانے والی زبردست تحریک کا تجربہ کیا۔

ہماری نسل، اپنے پیشرولوگوں کی طرح، مارکسزم میں غوطہ زن ہو گئی تاکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اسے سمجھنے کی کوشش کریں، سرمایہ داری کو ختم کریں اور ہر قسم کے جبر سے پاک معاشرے کی تعمیر کریں۔ سرمایہ داری کو تباہ کرنے کیلئے آپ کو یہ جاننے کی کی ضرورت ہے کہ یہ کام کیسے کرتی ہے۔ اس مقصد کیلئے ارنسٹ مینڈل بہت سے کارکنوں کیلئے ایک طاقتور معاون تھے۔ ان کی کتاب’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘اپنی چوتھی جلد میں ایسے معاشروں کا تجزیہ کرتی ہے جو سرمایہ داری سے سوشلزم کی جانب سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے حقیقی سوشلزم اور سوویت یونین اور مشرقی یورپ جیسے معاشروں کی حقیقت کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ کس طرح سوشلزم کی طرف منتقل ہونے والے معاشروں میں،افسرشاہی آمریت میں انحطاط پذیر ہونے کے باوجود، سرمایہ داری بحال نہیں ہوئی۔

تیسری جلد میں مینڈل یہ بتانے میں کامیاب ہوئے کہ 1950-1960میں سرمایہ دارانہ معاشرہ کیسا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد آنے والے معاشی عروج کا نتیجہ تھا۔ اسے فرانسیسی زبان میں ’30شاندار سال‘کہا جاتا ہے۔ مینڈل جنگ کے بعد کے سرمایہ دارانہ معاشرے کی خصوصیات اور تضادات کو یہ ظاہر کرنے کیلئے بیان کرتے ہیں کہ بحران ہمیشہ سرمایہ دارانہ سماج کا مستقل پہلو رہا ہے، جس کیلئے سرمایہ داری کو پس پشت ڈال کر ایک انقلابی حل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مینڈل کی کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘ کے بارے میں مزید معلومات کیلئے جان ولیم سٹٹجی(Jan Willem Stutje)کی تحریر کردہ مینڈل کی سوانح عمری Ernest Mandel: A Rebel’s Dream Deferredکے باب5کو پڑھا جا سکتا ہے۔

جب میں 1971میں ارنسٹ مینڈل سے پہلی بار ملا تھا تو وہ بلجیم کی ریوولوشنری ورکرز لیگ (ایل آر ٹی) کے ایک سرکردہ رکن تھے۔ وہ فری یونیورسٹی آف برلن میں پڑھاتے تھے، جہاں وہ ہفتے میں ایک بار1000طلبہ کو لیکچر دینے جاتے تھے۔ انہوں نے حال یہی میں،اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ختم کیا تھا، جو انہوں نے جرمن زبان میں لکھا اور اس کا دفاع کیا۔ مجھے ان کا جوش و خروش اچھی طرح یاد ہے، جب انہوں نے 1971کے موسم گرما میں ایل آر ٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں اسکا اعلان کیا تھا۔ یہ مقالے 1975میں ’لیٹ کیپیٹلزم‘(Late Capitalism)کے عنوان سے انگریزی میں کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ اس کتاب کا جرمن ایڈیشن 1972میں شائع ہوا۔ ان دنوں ارنسٹ مینڈل اپنی فکری طاقت کے عروج پر تھے۔ بے سمار لوگ ان سے رابطے میں تھے۔ بالکل واضح سی بات ہے کہ وہ انتھک محنت کرتے۔ وہ فری یونیورسٹی آف برسلز کے فلیمش بولنے والے سیکشن میں سیاست کے پروفیسر بھی تھے۔ وہ روزانہ کئی گھنٹے پڑھنے، لکھنے اور اپنی ملیٹنٹ سرگرمیوں کو انجام دینے میں لگے رہتے تھے۔

ارنسٹ مینڈل کا ٹریڈ یونینوں پر اثر و رسوخ:

ارنسٹ مینڈل کا اثر و رسوخ ٹریڈ یونینز، محنت کش طبقے، طلبہ اور نوجوانوں میں موجود تھا۔ بلجیم میں خاص طور پر وہ 1950کی دہائی سے مزدوروں میں مشہور تھے جہاں انہیں آندت خینا (Andre Renard)کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ خینا بلجئین ٹریڈ یونین تحریک کے ریڈیکل ونگ میں مرکزی ٹریڈ یونین لیڈر تھے۔ یہاں سوشلسٹ، کمیونسٹ اور ٹراٹسکی اسٹ۔۔۔سب نظریاتی دھڑے پائے جاتے تھے۔ یہ جنرل لیبر فیڈریشن آف بلجیم (FGTB) تھی، جس کے ایک ملین سے زیادہ اراکین تھے۔ 1954اور1956میں ’ہولڈنگز اور اکنامک ڈیموکریسی‘ کے موضوع پر دو کانفرنسیں منعقد ہوئیں، جن میں سرمایہ داری مخالف سٹرکچرل اصلاحات کا خیال متعارف کروایا گیا۔ مینڈل ان کے محرکین میں سے ایک تھے۔ انہوں نے آندرے خیناکیلئے بہت ساری دستاویزات لکھیں۔مینڈل کوفیکٹریوں، ٹریڈ یونین سیکشنز اور ٹریڈ یونین کانفرنسوں میں حصہ لینے کیلئے اکثر مدعو کیا جاتا۔ ان کے پاس بظاہر پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ وہ اپنے سامعین کو یہ سمجھانے میں بھی ماہر تھے کہ انہیں جمود کوختم کرنے کیلئے کیسے کام کرنا ہوگا۔

اس لئے وہ اکثر مثالیں دیتے کہ ٹریڈ یونین ملٹی نیشنل کارپوریشن کے اندر کیسے لڑ سکتی ہے، دوسری فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا رابطے کئے جا سکتے ہیں، مذاکرات کیسے کئے جائیں، کارروائیوں کو انجام دینے میں متحد ہونے کی کوشش کیسے کی جائے۔ سیلف گورننس اور کارکنوں کا کنٹرول اس لڑائی میں مرکزی عناصر تھے۔ گویاارنسٹ مینڈل کیلئے یہ محض بتانا ہی اہم نہیں تھا کہ سرمایہ داری کس طرح کام کرتی ہے بلکہ ٹھوس مثالوں اور جدوجہد کے ذریعے یہ دکھانا بھی اہم تھا کہ مزدور کس طرح اس قابل ہو سکتے ہیں کہ وہ ایسے سب کام کر سکیں، جو عمومی طور پر مالکان کرتے ہیں۔خاص طور پر اکاؤنٹس سنبھالنا، کام کے اوقات کا جائزہ لینا، کام کے اوقات میں کمی کرنا اور جب ہڑتال کی کارروائی کا سہارا لیا جائے تو ہڑتال کو اس طرح سے منظم کرنا کہ اسے مالکان سے جلد از جلد مراعات حاصل کرنے کیلئے سب سے زیادہ موثر بنایا جا سکے۔

ہڑتال پھیل سکتی ہے اور کارکنوں کو اہم حقوق حاصل کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، لیکن یہ عام ہڑتال یا بغاوت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس لئے مینڈل نے مزدوروں کی اسمبلیوں میں ایسے موضوعات پر بات کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے قدرتی طور پر ایل آر ٹی اور فورتھ انٹرنیشنل کے سیکشنز کے اندر سرمایہ دار مخالف جفا کش اور انقلابی کارکنوں کیلئے تربیتی کورسز بھی چلائے۔ وہ ایک پرجوش رابطہ کار اور اعلیٰ درجے کے انسٹرکٹر تھے۔ میں نے مینڈل کے تحت متعدد تربیتی کورسز میں شرکت کی اور انہوں نے مجھے بھی ایک انسٹرکٹر بننے کے قابل بنایا۔ آج بھی بہت سے کارکنوں کو ان کی تعلیمات یاد ہوں گی، انہوں نے جرمن انقلاب اور روسی انقلاب کے بارے میں جو کورسز دیئے تھے، خاص طور پر اس پر کہ ایک عام ہڑتال کیا ہے ا ور کس طرح ایک عام ہڑتال سے قبضے کے ساتھ ایک فعال ہڑتال کی طرف جانا ہے۔

ایک عام ہڑتال تھی جس کے نتیجے میں فرانس اور اٹلی میں، مئی 1968 میں،مزدور طاقت کا اظہار کرنے والی کی تنظیمیں سامنے آئیں اور ان کی بناید یہ تھی کہ ان دو ملکوں میں سب سے زیادہ ریڈیکل اقدامات ہوئے۔ اسی طرح، 1920-21میں اطالوی ورکرز کونسلوں کا قیام ہوا۔1918-19میں ہنگری کی کونسلیں سامنے آئیں۔یقیناانقلاب روس کی سوویتوں کے تجربات بھی اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ 1936سے1938-39کے ہسپتانوی انقلاب میں مزدوروں اور کسانوں کی عوامی طاقت کی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ مینڈل نہ صرف19ویں صدی کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ سے بلکہ پوری دنیا میں انسانیت کی طویل تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے پاس گہرا علم اور فہم تھا اور نوجوان نسل تک اس تمام تر تجربہ کو بہترین طریقے سے منتقل کرنے کی خواہش بھی تھی۔


ٹریڈ یونین ازم پر مینڈل کی تحریریں:

ارنسٹ مینڈل مسلسل جاری جدوجہد پر توجہ دے رہے تھے، خواہ ان کے اپنے ملک بلجیم میں مزدوروں کی تحریک ہو، باقی یورپ میں عام طور پر یا پوری دنیا میں کوئی تحریک ہو، انہوں نے ان سب میں شرکت کی۔انہوں نے سوشلسٹ پارٹی کے بائیں جانب موجود، دوسرے سرمایہ دار ی مخالف ملیٹنٹوں کے ساتھ مل کر قائم کئے گئے ہفت روزہ اخبار میں بہت زیادہ مضامین شائع کئے۔ یہ ’دی لیفٹ‘تھا، جس کی بنیاد انہوں نے 1956میں مذکورہ ٹریڈ یونینسٹ آندرے خیناکے تعاون سے رکھی تھی۔ بعد ازاں،خیناکے ساتھ تعلقات تیزی سے کشیدہ ہوتے گئے، کیونکہ خینانے معتدل موقف اپنانا شروع کر دیا۔ ’دی لیفٹ‘ کا ایک فلیمش ورژن (لنک)بھی تھا، مینڈل نے اس میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے سینکڑوں مضامین لکھے اور دیگر زبانوں کے متعدد جرائد، اخبارات، رسائل میں شائع کئے۔ یہ مضامین ٹریڈ رہنماوں اور اکیڈیمکس نے بھی پڑھے۔بلجیم میں انہوں نے ٹریڈ یونین ایف جی بی ٹی (FGTB)کے لئے بلجیم میں سرمایہ داری کے ڈھانچے اور بڑی سرمایہ دار کمپنیوں سے متعلق ایک سیریز اور خاص طور پر ہولڈنگ کمپنیوں کے بلجیم کی معیشت پر کنٹرول کے بارے میں اہم رپورٹیں تیار کیں۔

انہوں نے تقریباً60صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ تیار کیا، جو میرے خیال میں بہت اہم ہے۔ یہ ’سوشلزم تھرو ایکشن‘ تھا، جس پر آندرے خینا کا نام بھی موجود تھا۔ اس کی دسیوں ہزار بلکہ شاید لاکھوں کاپیاں تقسیم کی گئیں۔ اسے بلجیم میں یونین کے دسیوں ہزار مندوبین نے پڑھا اور 1950کی دہائی کے دوسرے نصف میں اس پمفلٹ کا ان پر زبردست اثر ہوا۔

یاد رہے کہ اس وقت بلجیم میں کئی بڑی ہڑتالیں ہوئیں۔ سب سے پہلے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی قبضے کے خلاف متعدد فیکٹریوں میں ہڑتالیں اور مزاحمتیں ہوئیں، جن میں ایک کم عمر ارنسٹ مینڈل نے حصہ لیا تھا(درحقیقت انہیں نازی حکام نے تین بار گرفتار کیا اور دو بار وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے)۔ اس کے بعد 1950میں بلجئیم میں بادشایت کے خاتمے اور جمہوریہ کے قیام کیلئے عام ہڑتال ہوئی۔ 1950کی دہائی میں کان کنوں کی ایک بڑی ہڑتال بھی ہوئی، جس میں کانوں کو قومیانے کا مطالبہ کیا گیا۔ سال بعد، ایک اضافی تنخواہ کے لئے اسٹیل اور دھات کے شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ایک بہت بڑی ہڑتال بھی ہوئی۔ 10ملین کی آبادی والے ملک میں 1960-61کے موسم سرما میں ایک عام ہڑتال ہوئی، جس میں 10لاکھ سے زائد مزدور ہڑتال پر تھے۔ مینڈل کا بہترین جوہران ہڑتالوں میں سامنے آیا۔ مزدوروں کی تحریک سے ان کے تعلقات مزید گہرے ہوتے گئے۔ ان کی ترجیحات میں سے ایک سیلف آرگنائزیشن کی طرف مزدوروں کو مائل کرناتھا۔

مینڈل نے ایکٹوازم کے 30سال مشکل حالات میں گزارے۔ تاہم 60کی دہائی کے دوسرے نصف میں پورے یورپ میں نوجوانوں اور محنت کش طبقات میں گہری ریڈیکلائزیشن آئی، اور 1971میں فورتھ انٹرنیشنل کے نئے بلجیم سیکشن ’ایل آر ٹی‘کی بنیادڈالی گئی، جو فیکٹریوں میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی تھی۔ اس اقدامات کے بعدارنسٹ مینڈل کو لگا کہ کہ ان کے نظریات بلجیم کے کئی بڑے کارخانوں، خاص طور پرلیژ میں کاکرل سٹیل ورکرزاور گِلی(Gilly)میں Glaverbelفیکٹری، یا شارلیروئے(Charleroi)کے علاقے میں شیشے کے پلانٹ کے مزدوروں میں اثر دکھا رہے ہیں۔

مینڈل اور نوجوانوں کی تحریک:

میں نے 1950-1960کے درمیان بلجیم میں محنت کش طبقے پر مینڈل کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ یہ اثر دوسرے ملکوں میں پھیل گیا تھا، کیونکہ جفاکش کارکنوں، ٹریڈ یونین کے مندوبین اور رہنماؤں نے اس وقت فرانس، اٹلی، جرمنی، برطانیہ اور پھر بعد میں اسپین اور پرتگال میں ان کی تجاویز پر توجہ دینا شروع کر دیا تھا۔ جرمنی میں سرمایہ داری مخالف اور انٹرنیشنل اسٹ رجحان رکھنے والی طلبہ تنظیم ’جرمن سوشلسٹ سٹوڈنٹس یونین (SDS)‘ بھی ان سے متاثر ہوئی۔اس تحریک کے قائدین میں سے ایک رُڈی ڈوٹشک تھے، جن کے ساتھ وہ 1966-67سے، یعنی مئی 68ء سے پہلے تک قریبی رابطے میں تھے۔ 1966میں مینڈل نے طلبہ تحریک کی رہنما گزیلا شلز سے شادی کی۔ یقینا اُن کا اثر نوجوان فرانسیسی ٹراٹسکی اسٹوں پر بھی تھا۔ ان میں جڑواں بھا ئی ایلین کریوین اور ہوبرٹ کریوین کے علاوہ دانیال بن سعید، ہنری ویبر، پئیر روزے، جنیت ہابل، کیتھرین سماری، جوزے ترات اور ان کی جڑواں بہن جنین شامل ہیں۔ ان سب نے فرانس میں یونین آف کمیونسٹ سٹوڈنٹس (UEC) سے نکالے جانے کے بعد مل کر’ریوولوشنری کمیونسٹ یوتھ موومنٹ(JCR)‘کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کا بلجیم میں ریڈیکل طلبہ اور نوجوانوں پر بھی اثر و رسوخ تھا، ان میں سے کچھ نے ینگ سوشلسٹ گارڈ(JGS) میں شمولیت اختیار کی تھی،یا اس کی قیادت کی تھی، جو سوشلسٹ کنفیڈریشن آف ورکرز (CST)کے ساتھ ضم ہو کر مئی 1971میں ایل آر ٹی تشکیل دے چکے تھے۔

جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ1971میں فری یونیورسٹی آف برلن میں ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد مینڈل فری یونیورسٹی آف برسلز میں فلیمش بولنے والے شعبے میں پروفیسر بن گئے تھے، جسے فری یونیورسٹی آف برسلز(Vrige Universiteit Brussel)کہا جاتا ہے۔ جس وقت میں لیژ میں مقیم تھا، تب طلبہ تحریک اور ترقی پسند مارکسی لیکچررز کے دباؤ میں مینڈل کو1972-73-74میں یونیورسٹی آف لیژمیں مارکسی معاشیات پر لیکچر ز کیلئے مدعو کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں نے اپنی نسل کے دیگر طلبہ کے ہمراہ،ایک طالب علم کے طور پر داخلہ لیا تھا۔ ان طلبہ میں،بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ فلم ساز بننے والے دردین (Dardenne Brothers) میں سے ایک لوک(Luc)بھی شامل تھے۔ انہوں نے کان فلم سیدٹیول میں دو مرتبہ Palme d’Orایوارڈ جیتا۔ایک بار فلم انہوں نے Rosettaکیلئے ایوارڈ جیتا۔ لوک دردین اور میں نے یونیورسٹی آف لیژمیں ارنسٹ مینڈل کی کلاسوں میں ایک ساتھ شرکت کی۔

ارنسٹ مینڈل کی لیکچر ہالز میں ہم عصرمارکسی دانشوروں کے ساتھ مزاکرے:

اگر یہ بات اہم ہے کہ 1967سے لے کر 1970کی دہائی کے آخر تک ارنسٹ مینڈل کی ترریروں کا بہت بڑا اثر ہوا، تو اسی عرصہ میں ان کی تحریروں کے اثرات بھی کم اہم نہیں۔ انہوں نے پیری اینڈرسن، ارنسٹ بلوخ، ہربرٹ مارکوزے، رومن راسڈولسکی، لوسین گولڈمار اور دیگر بڑے مارکسی سکالروں کے ساتھ عوامی فورمز پر مباحث کئے۔ ان عوامی مباحثوں میں فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کے عظیم مورخین، ماہرین اقتصادیات اور فلسفیوں۔۔۔مثلاََ لوئی التھوسر، ژاں ایلنستین اور شارلز بیتلہیم۔۔۔کے ساتھ بھی بحث کی۔

بعض ایسے اجلاس، جن میں مینڈل کی شرکت کا پہلے سے اعلان کیا گیا ہوتا تھا، ان میں 1ہزار سے 3ہزار کے درمیان لوگ موجود ہوتے تھے۔ 1967سے1970کی دہائی کے آخر تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ 1967-68میں جرمنی میں بھی ایسا ہی ہوا۔جرمنی میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر، 1988-89میں، گریگور گیسی (Gregor Gysi)جیسے تنقیدی کمیونسٹ رہنماؤں کے ساتھ مباحثوں میں 3سے 4ہزار لوگوں نے برلن میں شرکت کی۔ مئی 1968میں انہوں نے 9مئی کو پیرس میں، ’نائٹ آف بیری کیڈز‘ کے دوران جے سی آر کے زیر اہتمام ہونے والے ایک اجلاس سے خطاب کیا، جس میں 2500سامعین موجود تھے۔ 1971میں انہوں نے پیرس کمیون کی صد سالہ یادگاری تقریب میں پر لاشیز (Pere Lachaise)قبرستان کے قریب خطاب کیا، جہاں 15سے20ہزار کے درمیان لوگ موجود تھے۔ 1974-75میں ’کارنیشن انقلاب‘کے فوری بعد پرتگال میں 2ہزار سے2500سامعین کے سامنے خطان کیا۔فرانکو ازم کے زوال پر سپین میں میٹنگزمیں 2سے3ہزار لوگ شریک ہوئے۔فورتھ انٹرنیشنل کا ایک بڑا یورپی اجلاس، نومبر 1970میں فری یونیورسٹی آف برسلز میں ہوا جس کا پہلے بھی ذکر آیا، اس میں 3500شرکاء کے ساتھ خطاب کیا۔

اس طرح مینڈل کو ریڈیکل تحریک کے ہراول میں بڑا عوامی خطیب سمجھا جاتا تھا، جو طلبہ اور محنت کشوں کو ایک ساتھ مخاطب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ جرمن، فرانسیسی، انگریزی، فلیمش/ڈچ زبانوں میں بڑی آسانی سے اظہار خیال کرتے۔ سپین اور لاطینی امریکہ میں ہسپانوی زبان میں تقریر کرتے، برتگال میں پرتونول(پرتگالی اور ہسپانوی کا مرکب) میں اور اٹلی میں اطالوی زبان میں گفتگو کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ انہوں نے تجزیہ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو اپنی عوامی گفتگو، پیغامات، توانائی کے ذریعے اپنی بات آگے پہنچائی۔ سرمایہ داری مخالفت، بین الاقوامیت اور آزادی وانقلاب ان کے پیغام کا مستقل مدعا تھے۔


فورتھ انٹرنیشنل:

ارنسٹ مینڈل نے دوسری عالمی جنگ سے ٹھیک پہلے 1939میں 16سال کی عمر میں فورتھ انٹرنیشنل میں شمولیت اختیار کی۔ وہ بلجئیم پر جرمن قبضے کے آغاز سے ہی بلجئین مزاحمت میں شامل ہوئے اور نازیوں کے ہاتھوں تین بار گرفتار ہوئے۔

دوسری گرفتاری اس وقت ہوئی، جب وہ 29مارچ1944کو لیژمیں اسٹیل ورکرز میں پمفلٹ بانٹ رہے تھے۔ انہیں جرمن فوج نے گرفتار کیا، لیژمیں سینٹ لیونارڈ کی جیل میں مقدمہ چلایا گیا اور سالوں پر مبنی جبری مشقت کی سزا سنائی گئی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ گسٹاپو کی بجائے جرمن فوج نے سیاست کے الزام میں ان پر مقدمہ چلایا۔ اگر گسٹاپو پکڑتی تو اکسٹرمینیشن کیمپ بھیج دیا جاتا، یا فوراً پھانسی دے دی جاتی۔ جون1944کے اوائل میں انہیں جرمنی جلاوطن کر دیا گیا۔ وہ پہلے ایک کیمپ سے فرار ہوگئے۔ وہ جیل کے دو محافظوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی صلاحیت کی بدولت فرار ہو سکے۔ان دو محافظوں میں سے ایک سوشلسٹ پارٹی کا سابق رکن تھا اور دوسرا کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا۔ مینڈل کو جلد ہی دوبارہ پکڑ لیا گیا اور مختلف کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔ مجموعی طو رپر انہیں نازی جرمنی کے 6کیمپوں میں یکے بعد دیگرے قید کیا گیا۔

انہیں مارچ 1945میں امریکی فوج نے اس کیمپ سے آزاد کروایا، جہاں وہ اس وقت تھے۔ جن کیمپوں میں انہیں رکھا گیا تھا، وہ جرمن آرکائیوز میں درج ہیں اور جان ولیم سٹٹجی کی لکھی سوانح عمری میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد ارنسٹ مینڈل فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما بن گئے۔ انہوں نے قبضے کے دوران اور اپنی دوسری گرفتاری سے پہلے فورتھ انٹرنیشنل کو دوبارہ منظم کرنے کیلئے پہلی خفیہ یورپی کانفرنس میں حصہ لیا تھا۔ فروری1944میں، بلجئین آرڈین (Belgian Ardennes)کے سینٹ ہیوبرٹ میں، ایک فارم میں بلجیم اور فرانس کے فورتھ انٹرنیشنل کے مندوبین کا اجلاس ہوا تھا۔ رہائی کے بعد، مینڈل نے فورتھ انٹرنیشنل کے احیاء میں حصہ لیا۔ وہ مائیکل باپلوکے علاوہ،فورتھ انٹرنیشنل کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک بن گئے۔ رہائی کے وقت ان کی عمر 23سال تھی۔ 1940-50کے دوران 1960کی دہائی کے اوائل تک فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما کے طور پر ان کا کردار بہت اہم اور دانشمندانہ تھا۔ وہ اپنی کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘کی اشاعت سے ایک مارکسی ماہر معاشیات کے طور پر جانے جاتے تھے۔وہ بلجیم کے فرانسیسی زبان کے ہفت روزہ ’دی لیفٹ‘کے بانی تھے۔وہ سوشلسٹ روزنامہ ’دی پیپل‘ (Le Peuple)کے ساتھ بطور صحافی منسلک ہوئے اور Lلیژ میں ’ایف جی بی ٹی‘ ٹریڈ یونین کے روزنامہ لی والونی(La Walloni)کے ساتھ بھی منسلک ایک صحافی بن گئے۔

1960کی دہائی کے وسط میں اور مئی68کے فوراًبعد بلجیم کی سوشلسٹ پورٹی سے نکالے جانے کے بعد وہ فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما کے طور پر عوام میں نمودار ہوئے۔ بین الاقوامی طلبہ اور محنت کشوں کی انقلابی تحریک میں ان کے کردار کے نتیجے میں فوری طور پر مختلف حکومتوں کی جانب سے انہیں کئی ملکوں میں داخلے پر پابندی لگ گئی۔ پابندی لگانے والوں میں فرانسیسی حکومت بھی شامل تھی۔امریکی حکومت، سوئس، جرمن اور آسٹریلوی حکومتوں نے بھی داخلے پر پابندی لگا دی۔

جرمنی میں بھی داخلے پر پابندی لگی جو کسی سکینڈل سے کم نہ تھی کیونکہ انہوں نے نازی ازم کے خلاف مزاحمت کی تھی اور انہیں جنگ کے بعد قائم ہونے والی جرمن حکومت نے نازی مخالف مزاحمت میں حصہ لینے پر میڈل سے نوازا تھا۔ مینڈل نے جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

جرمن نازی مخالف دانشوروں کے احتجاج اور طلبہ تحریک کی جانب سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرنے کے باوجود مینڈل کو جرمن سرزمین تک رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ درحقیقت مجھے یاد ہے کہ جب سوشلسٹ چانسلر ہلمٹ شمڈنے یونیورسٹی کا دورہ کیا تو ارنسٹ مینڈل نے مجھے لیژ یونیورسٹی میں اس پابندی پر آواز اٹھانے کے لئے کہا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں جرمن سرزمین پر پابندی کے خلاف عوامی احتجاج کروں۔ پابندیوں نے انہیں سرحد پار کرنے سے نہیں روکا۔ انہوں نے بہت زیادہ سفر کیا اور خاص طور پر فرانس میں داخلے پر پابندی کے باوجود انہوں نے مسلسل سرحد عبور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ مئی 1971میں پیرس کمیون کی یاد میں کمیونسٹ لیگ اور ورکرز سٹریگل کی دعوت پر ارنسٹ مینڈل کی پیرس آمد پر ہزاروں فرانسیسی مظاہرین موجود تھے۔ 10سے15ہزار مظاہرین تو تھے جب ہوبرٹ کریوین کی موٹر بائیک کی پچھلی نشست پر بیٹھ کر ارنسٹ مینڈل خطاب کرنے کیلئے پہنچے تھے۔

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا رہا کہ فرانسیسی حکام نے انہیں گرفتار کیا اور وہ واپس بلجیم آگئے۔ ایک مرتبہ پر چارلز ڈیگال ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد انہیں واپس بلجیم بھیج دیا گیا، لیکن اسی روز برسلز کے ایک ساتھی نے انہیں ایک محتاط راستے سے واپس پیرس پہنچا دیا۔

نوٹ: مضمون کے اگلے حصے میں ارنسٹ مینڈل، کیوبا کے انقلاب اور چی گویرا پر بات کی جائے گی۔

(مدیر جدوجہد: ایرک توساں نے ہنوز اگلا حصہ شائع نہیں کیا۔ جوں ہی اگلا حصہ شائع ہو گا، اردو ترجمہ پیش کر دیا جائے گا)

Roznama Jeddojehad
+ posts