نقطہ نظر

اظہار رائے کی آزادی وہی ہے جو حکمران طبقے کو حاصل ہے

التمش تصدق

بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول کے زباں اب تک تیری ہے

انسان کو حیوان ناطق بھی کہا جاتا ہے یعنی بولنے والا حیوان۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا دیگر جانور اور پرندے بولتے نہیں ہیں کیا ان کے پاس زبان نہیں ہے آواز نکالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔اس کا جواب ہے کہ ان کے منہ میں بھی زبان ہے۔وہ بھی مخصوص لیکن محدود آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے قائم کرتے ہیں اورخطرات سے آگاہ کرتے ہیں،لیکن انسانوں کی طرح گفتگو نہیں کر سکتے ہیں۔وہ مخصوص آواز کے ذریعے یہ تو بتا سکتے ہیں کہ کوئی خطرہ ہے۔ تاہم یہ نہیں بتا سکتے کے کیا خطرہ ہے۔ یہ رائے بھی نہیں دے سکتے کہ کیا کرنا چاہیے؟

کہا جا سکتا ہے کہ بولتا تو طوتا بھی ہے؟ وہ تو ہماری طرح الفاظ کی ادائیگی بھی کر سکتا ہے۔ہاں طوطا بولتا ہے لیکن اس میں اور انسان کے بولنے میں بھی فرق ہے۔اسے جو یاد کروایا جاتا ہے، وہ بولتا ہے لیکن انسان کے بولنے کے پیچھے اس کی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ وہ سوچ جسے لاکھوں سالوں کے پیداواری عمل نے جنم دیا ہے۔اس لیے اظہار رائے کی آزادی سے مراد ہے انسان کو اس کی مرضی کا فلسفہ، نظریہ اور سوچ رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کی آزادی ہے۔ نہ کے طوطے جتنی آزادی جس میں آپ صرف وہی بول سکتے کے جو حاکم طبقات کے مفادات میں ہے۔

اظہار رائے ایک جمہوری حق ہے،جو تسلیم شدہ انسانی حقوق شمار ہوتا ہے،لیکن بدقسمتی یہ ہے آج بھی اس حق سے انسانوں کی اکثریت محروم ہے۔ملکی اور عالمی قوانین تو اظہار رائے کی آزادی دیتے ہیں،لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کروانے والا طبقہ اظہار رائے کی اجازت نہیں دیتا۔وہی سوچ،وہی رائے قابل قبول سمجھی جاتے ہے،جو حکمران طبقہ میڈیا اور نصاب کے ذریعے بناتا ہے۔ہر اس سوچ اور نظریے پر یہ کہہ کر پابندی عائد کی جاتی ہے کہ یہ سوچ ملکی سالمیت کے خلاف ہے، یہ نظریہ قومی مفاد کے خلاف ہے،یا یہ فلسفہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہر اس سوچ اور نظریے پر پابندی عائد کی جاتی ہے جو اقلیتی سرمایہ دار حکمران طبقے کے مفادات کی بجائے وسیع محنت کش عوام کی تکلیفوں اور محرومیوں کی وجوہات کو آشکار کرتی ہے۔

اگر اس نظام میں اظہار رائے کی آزادی مل بھی جائے،پھر بھی غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی رائے کی کیا حیثیت ہے؟ سرمایہ داروں کو ہی اس نظام میں فیصلہ سازی کا حق ہے، اور ان کی رائے ہی مقدم ہے۔سائنسدانوں کی یہ رائے ہے کہ ماحولیاتی تباہی کو اگر نہ روکا گیا تو آنے والی تین دہائیوں میں زمین کا بڑا حصہ انسانوں کے لیے زندہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تواس سیارے سے ہر قسم کی زندگی ختم ہو جائے گی۔ اس رائے کے اظہار کی آزادی تو ہے،یہ رائے درست بھی ہے۔تاہم اس کے باوجود سرمایہ دار حکمران طبقے اس رائے کو سنجیدہ نہیں لے رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان،جن کا ساری دنیا کی معیشت، سیاست اور ریاستوں پر قبضہ ہے،اپنے منافعوں کو قربان نہیں کرنا چاہتی۔یہی صورتحال جنگوں اور معاشی بربادی کے خطرات کی ہے۔اکثریتی انسان اس کو روکنے کی رائے رکھنے کے باوجود اس بربادی کو اس وقت تک روک نہیں سکتے، جب تک محنت کش طبقہ سرمایہ داروں سے اقتدار نہیں چھین لیتا۔

بقول جالب

آج بھی حرف آخر ہے
بات چند لوگوں کی
دن ہیں چند لوگوں کے
رات چند لوگوں کی
اٹھو کے درد مندوں کے
صبح شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل
وہ نظام بدلو بھی

ہمیں ایسا نظام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے،جس کو چلانے میں تمام لوگوں کی شمولت ہو۔جہاں ہر انسان کا سماج کی تعمیر میں شعوری کردار ہو، جہاں انسان کو سوچنے اور بولنے کا حق ہو۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔