خبریں/تبصرے

لاہور: جی سی یونیورسٹی کے مسائل پر ’طلبہ بیٹھک‘ میں مشترکہ لائحہ عمل طے

لاہور (عمیر علی) 26 ستمبر کو پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو جی سی یو، لاہور کی جانب سے پاک ٹی ہاوس پر طلبہ بیٹھک کا انعقاد کیا گیا، جس میں طلبہ کے ساتھ پروکٹر کے بدتمیز رویے، ہراسگی، گندے واشرومز، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور فیسوں میں اضافے سمیت تمام مسائل پر گفتگو ہوئی اور ان کے حل کے لیے لائحہ عمل بنایا گیا۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے لاہور میں آنکھوں کی بیماری پھیلی ہوئی لیکن ہمارے واش رومز میں ہاتھ منہ دھونے کے لیے صابن تک نہیں۔ یونیورسٹی نے مختلف کارڈز کی فیس، ٹیوشن فیس اور ہاسٹل فیس میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے۔ ہاسٹل میں چاہے کوئی کھانا کھائے یا نہ کھائے، رہے یا چھٹی پر ہو لیکن ان کو ہزاروں روپے کے میس اور بجلی کے بل ادا کرنا لازم ہے۔ انتہائی معاشی بحران میں طلبہ کے ساتھ انتظامیہ کا یہ رویہ انتہائی بے رحمانہ ہے، جو طلبہ کی تعلیم جاری رکھنے میں شدید رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے۔

طلبہ کا مزید کہنا تھا کہ کیمپس پر جنسی ہراسگی ایک اہم مسئلہ ہے مگر اس کو حل کرنے کے لیے مناسب طریقہ کار موجود نہیں۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں طلبہ کی نمائندگی نہیں، اساتذہ کا اپنے ہی ساتھیوں کے کیس بند کمرے میں دیکھنا کسی صورت انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اس لیے طلبہ نے مطالبہ کیا کہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی میں منتخب طالب علم کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔

کیمپس میں تعینات چیف پروکٹر کو فی الفور بر طرف کیا جانا ایک اہم مطالبہ تھا۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ چیف پروکٹر کا رویہ کسی گلی کے غنڈے سے کم نہیں۔ پچھلے سال ایک طالب علم پر تشدد کے خلاف طلبہ کے احتجاج پر انہیں برطرف کیا گیا تھا، مگر کچھ ہی عرصے بعد دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ جس کے بعد ان کے رویے میں رعونت اور بدتمیزی میں مزید اضافہ ہو گیا۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ کیفے ٹیریا میں کھانا غیر معیاری ہے جبکہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا معیاری کھانے کی فراہمی اور قیمت میں اضافے کی روک تھام کے لیے اقدامات کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ کیمپس میں موجود واٹر فلٹرز آخری بار 2019ء میں تبدیل کیے گئے تھے،جبکہ پانی غیر معیاری اور غیر صحت بخش ہے۔ لہٰذا جلد از جلد واٹر فلٹرز کی تبدیلی کا بھی مطالبہ بھی کیا گیا۔

طلبہ کا مزید کہنا تھا کہ ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کیا جائے، حال ہی میں فیسوں میں 45-40 فیصد اضافے کیے گئے ہیں جبکہ نئے ہاسٹلز کے لیے سالانہ رینٹ 90 ہزار کر دیا گیا ہے۔ ہر طالب علم کو 15 سے 20 ہزار میس کا بل بھیجا جاتا ہے، چاہے وہ وہاں سے کھانا کھائے یا نہ کھائے، سٹوڈنٹس فنڈز کے نام پر ہر سمسٹر میں طلبہ سے 6 ہزار وصول کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ 700 سپورٹس کے انعقاد کے لیے وصول کیے جاتے ہیں، لیکن طلبہ کے کھیلنے کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ جی سی یونیورسٹی کے سپورٹس مینز کی سکالرشپ ختم کردی گئی ہے، لہٰذا ان مسائل پر توجہ دی جائے۔

طلبہ نے جی سی یونیورسٹی کے گریڈنگ سسٹم کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے اور لائبریری ٹائمنگ کو بڑھانے کا مطالبہ بھی کیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ شام 8 بجے کے بعد لائبریری بند کردی جاتی ہے، جس کے اوقات کو بڑھائے جائیں۔ طلبہ کی جانب سے کیمپس میں وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے مرکزی ترجمان علی عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ وہ طلبہ کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی پاکستان میں تعلیم پر اشرافیہ کی اجارہ داری ہے۔ گورنمنٹ کالج جیسے سرکاری اداروں سے چند غریب طلبہ تعلیم حاصل کرنے اور اپنی غربت کا سائیکل توڑنے میں کامیاب ہو جاتے تھے، مگر ہر قسم کی فیس میں اضافہ، ان چند لوگوں کے لیے بھی تعلیم کا دروازہ بند کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ ہزاروں روپے فیس بھرنے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے باوجود ان کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جی سی یونیورسٹی کی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے فوری اقدام اٹھائے۔

انھوں نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان مطالبات کا حصول صرف ہماری مستقل مزاج مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا آپ سب بھی ثابت قدم رہیں اور اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو بھی اس مہم کے لیے منظم کریں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts