چشتیاں (پ ر)پاکستان میں ہونے والے احتجاج کی قیادت پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (اے پی ایم ڈی ڈی) نے کی اور یہ احتجاج اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے ورلڈ فوڈ سکیورٹی کے سالانہ پلینری سیشن کے پہلے روز منعقد کیا گیا، جہاں حکومتیں عالمی غذائی تحفظ کے بارے میں پالیسی سفارشات پر تبادلہ خیال اور توثیق کریں گی۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے خوراک کی خودمختاری اور زراعت میں پائیدار طریقوں کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک سیمینار اور مظاہرہ کیا۔ یہ پروگرام کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساویرا فاؤنڈیشن کے ساتھ مشترکہ طور پر منعقد کیا گیا تھا۔ سیمینار میں چھوٹے کسان، ھاری، سول سوسائٹی، حکومتی نمائندے اور زرعی ماہرین نے ملک میں غذائی تحفظ اور کسانوں کے حقوق پر تبادلہ خیال کیا۔
کسان رہنما اور جنوبی ایشیائی کسان اتحاد کے جنرل سیکرٹری طارق محمود نے کہا کہ”یہ ناقابل قبول ہے کہ چھوٹے کسان اپنی گندم فروخت کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور حکومت ان کی پیداوار خریدنے سے انکار کر رہی ہے۔ مقامی پیداوار کی حمایت کرنے کے بجائے، گندم درآمد کرنے کے حکومتی فیصلے سے کسانوں کو بہت نقصان پہنچا ہے اور ملک خوراک کی کمی کا شکار ہوا۔ انہوں نے مزید کہا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت گندم اور گنیکی مناسب کم از امدادی قیمتوں کی فراہمی جاری رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ہمارے کسان محفوظ ہیں۔“
کسان تنظیموں کی جانب سے پچھلے سال اور اس سال کے پہلے تین مہینوں میں گندم درآمد کرنے کے حکومتی فیصلے پر مسلسل تنقید کی جارہی ہے، اس کے نتیجے میں مارکیٹ میں گندم کی زیادتی اور قیمتوں میں بہت کمی ہو گی تھی۔ پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد گندم کی زیادہ تر فصل تباہ ہوئی اور کاشت کاری پر اثرات نے 2023 کے ابتداء میں گندم کی قلت پیدا کردی۔ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے اعدادو شمار کے مطابق، ستمبر 2023 سے مارچ 2024 کے درمیان 35 لاکھ ٹن سے زائد گندم بین الاقوامی مارکیٹ سے پاکستان میں درآمد کیا گی، جہاں قیمتیں بہت کم تھیں۔ اس زیادتی کے نتیجے میں، اس سال اپریل کے آغاز میں، جب پاکستان کے کسانوں نے اپنی گندم کی کٹائی شروع کی، ملک کے قومی اور صوبائی محکمہ خوراک کے ذخیرے میں 4.3 ملین ٹن سے زیادہ گندم موجود تھی۔
کسان رہنما چوہدری محمد عباس ایڈووکیٹ نے کہا کہ”گندم کی لامحدود نجی درآمد کی اجازت دینے کے حکومتی فیصلے نے چھوٹے کسانوں کو بری طرح متاثر کیا۔ گندم کا سٹاک مکمل ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشتکاروں کو اپنی گندم بہت کم قیمتوں پر دوسرے ذرائع کو بیچنا پڑی– اور انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے مزید کہا، ہماری اہم فصلوں کے لیے مسابقتی اور کم از کم امدادی قیمتوں کے بغیر ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔“
سیمینار کے بعد، شرکاء نے مظاہرہ کیا، جنہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ایک جامع ماحولیاتی ایکشن پلان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین موسمیاتی اثرات کو کم کرنے اور چھوٹے کسانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت کا مطالبہ کر رہے تھے۔