ارون دھتی رائے
(نوٹ: ارون دھتی رائے کی یہ تقریر ’دی وائر‘ اور ’ڈان‘ میں انگریزی زبان میں شائع ہوچکی ہے۔ ’جدوجہد‘کے قارئین کے لیے اسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔)
میں، پین پینٹر انعام سے نوازے جانے اور اس سے سرخروئی حاصل کرنے کے باعث انگلش پین کے ممبران اور جیوری کے اراکین کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس کا مستحق گردانا ہے۔ میں اس برس کے جرأت آموز لکھاری (رائٹر آف کریج) کا نام لیتے (یا پکارتے)ہوئے، جنہیں میں نے شریکِ انعام کیا ہے، اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہوں گی۔
علا عبدالفتاح، جرأت کے لکھاری اور انعام میں میرے شریکِ کار، میں آپ کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے ساتھ ہدیہئ تبریک پیش کرتی ہوں۔ ہم نے امید اور دعا کی تھی کے ستمبر میں قید کی بیڑیاں آپ کے پیروں سے کاٹ دی جائیں گی اور بندی خانے سے رہا ئی ممکن ہو گی، لیکن مصری حکومت نے فیصلہ کیا کہ (بلاشبہ) آپ ایک خوبصورت قلم کار (مصنف) تو تھے لیکن اس سے بھی بڑھ کر بلکہ بے پناہ حد تک خطرناک مفکر تھے،جسے رہائی کا پروانہ عطا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ یہاں اس کمرے میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ آپ یہاں سب سے اہم شخص ہیں۔ آپ نے قید سے لکھاکہ ”میرے الفاظ نے اپنی طاقت کھو دی، لیکن وہ پھر بھی، مسلسل میرے اندر سے بہتے رہے۔ میرے پاس اب بھی ایک آواز تھی، خواہ چند ہی لوگ گوش بر آواز تھے۔“علا، ہم آپ کو سن رہے ہیں، بہت نزدیکی سے سن پا رہے ہیں۔
محبی و مکرمی ناؤمی کلین، جو کہ علا اور میری مشترکہ دوست ہیں، آپ کو بھی آداب۔ آج کی رات یہاں موجود ہونے پر آپ کی شکر گزار ہوں۔ آپ کا یہاں ہونا میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے ساری دنیا یہاں سمٹ آئی ہو۔ یہاں پر رونق افروز تمام لوگوں، جو یہاں جمع ہیں، کو میں اپنا سلام پیش کرتی ہوں اور ان کو بھی جو شاندار سامعین کی منڈلی میں نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن وہ مجھے یہاں موجود افراد کی طرح واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ میں اپنے ان دوست، احباب اور ساتھیوں کی بات کر رہی ہوں جو بھارت کے زنداں میں مقید ہیں – وکیل، ماہرین تعلیم، طلباء، صحافی – عمر خالد، گل فِشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرجیل امام، رونا ولسن، سریندر گڈلنگ، مہیش راوت۔ میرے عزیز دوست خرم پرویز، جو میرے تمام جاننے والوں میں سب سے غیر معمولی شخص ہیں، میں آپ سے بھی مخاطب ہوں۔ میں علم رکھتی ہوں کہ آپ تین برس سے زنجیرِ زنداں پہنے قید خانے میں ہیں، اور عرفان مَہراج آپ سے بھی، اور ان سیکڑوں لوگوں سے جو کشمیر اور ملک بھر میں پابندِ سلاسل ہیں، جن کی زندگیاں اجڑ چکی ہیں۔
جب روتھ بورثوک، انگلش پین کی کرسی نشین اور پینٹر پینل کی صدر، نے پہلی بار اس عزت کے بارے میں مجھے لکھا، تو انہوں نے بتایا کہ پینٹر انعام ایک ایسے مصنف کو دیا جاتا ہے جس نے ’ہمارے معاشروں اور زندگیوں کی حقیقی سچائی کوغیر متزلزل، بلا خوف و ہچکچاہٹ، شدید فکری عزم‘کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہو۔ یہ ہیرولڈ پینٹر کے نوبل انعام کو وصول کرتے وقت تقریر کا ایک ٹکڑا ہے۔ لفظ ’غیر متزلزل‘نے مجھے لمحے بھر کے لیے رکنے پر مجبور کیا، کیونکہ میں اپنے آپ کو ایک ایسا شخص سمجھتی ہوں جو تقریباً ہمیشہ جھجکتا اور متزلزل رہتا ہے۔ میں ’جھجک‘ اور’غیر جھجک‘ کے موضوع پر تھوڑی دیر قیام (بات) کرنا چاہوں گی، جسے ہیرولڈ پینٹر نے، شاید، خود بہترین طور پر بیان کیا ہے:
”1980 کی دہائی کے آخر میں لندن میں قائم امریکی سفارت خانے میں ہونے والی ایک میٹنگ میں موجود تھا۔ امریکی کانگریس اس بات کا فیصلہ کرنے والی تھی کہ آیا نکاراگوا کی ریاست کے خلاف اپنی مہم میں کونٹراس کو مزید رقمی اعانت فراہم کی جائے یا نہیں۔ میں نکاراگوا کی طرف سے مذاکرات کرنے والی ایک نمائندہ جماعت کا رکن تھا، لیکن اس وفد کے سب سے اہم فرد ایک فادر، جان میٹکاف تھے۔ امریکی سفارتی وفد کی سربراہی ریمنڈ سائٹس کر رہے تھے (جو اس وقت سفیر کے نائب تھے اور بعد ازاں خود سفیر بنے)۔ فادر میٹکاف نے کہا کہ ’سر، میں نکاراگوا کے شمال میں ایک پیرش کا مہتمم ہوں۔ میرے پیرش کے لوگوں نے ایک اسکول، دارالشفاء (ہسپتال)، اور ثقافتی مرکز بنایا تھا۔ ہم سب پرامن فضا میں تابندگی سے رہ رہے تھے، لیکن کچھ ماہ قبل، ایک کونٹرا فورس نے پیرش پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے سب کچھ، اسکول، ہسپتال اور ثقافتی مرکز، تہہ و بالا کر دیا۔ یہاں تک کہ نرسوں اور استانیوں کی عصمت دری کی، ڈاکٹروں کو انتہائی بے رحم طریقے سے قتل کیا اور پیرش کے لوگوں کے ساتھ درندوں کا سا سلوک کیا۔ براہِ مہربانی امریکی حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ اس دل کو آنکھوں سے ٹپکا دینے والی دہشت گردانہ سرگرمی کی حمایت روک دے۔‘
ریمنڈ سائٹس کی ایک زیرک، فہمیدہ، ذمہ دار اور انتہائی مُقطع آدمی کے طور پر بہت اچھی ساکھ تھی۔ انہیں سفارتی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ فادر میٹکاف کی گفتگو سننے کے بعد، انہوں نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر بڑی سنجیدگی سے بولے، ”فادر، میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ جنگ میں ہمیشہ معصوم لوگ ہی تکلیف اٹھاتے ہیں۔“ اس کے بعد، وہاں سرد خاموشی سی چھا گئی۔ ہم ان کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہی رہ گئے۔ وہ رتی بھر بھی ہچکچائے اور نہ ہوئے متزلزل ہوئے۔“
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے کونٹراس کو’اخلاقی طور پر ہمارے بانی اجداد کے مساوی‘قرار دیا تھا۔ یہ ایک ایسا جملہ تھا جسے وہ نہ صرف بہت پسند کرتے تھے بلکہ اس کے شوقین تھے۔ انہوں نے اسے سی آئی اے کی حمایت یافتہ افغان مجاہدین کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال کیا، جو بعد میں طالبان کی صورت میں ڈھل گئے اور آج وہ20سال تک امریکی حملے اور قبضے کے خلاف جنگ کرنے کے بعد افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ کونٹراس اور مجاہدین سے قبل، ویتنام کی جنگ تھی، جس میں ’بغیر ڈگمگائے‘امریکی فوجی نظریہ نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ’جو کوئی بھی حرکت کرنی کی جسارت کرے اسے ہلاک کر دو، اس کا قلعہ قمع کر دو‘۔ اگر آپ پینٹاگون پیپرز اور ویتنام میں امریکی جنگ کے مقاصد پر دیگر دستاویزات کا مطالعہ کریں، تو آپ کچھ پرشوخ، جاندار مگر دلچسپ ’غیر جھجکتے (بے خوف)‘مباحثوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں کہ انسانی نسل کشی کا کیسے مرتکب ہوا جائے، کیا لوگوں کو فوراً مارنا بہتر ہے یا انہیں آہستہ آہستہ بھوکا مارنا موزوں ہے؟ کون سا طریقہ زیبا معلوم ہو گا یا درست نظر آئے گا؟
پینٹاگون میں موجود ہمدرد منتظمین کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ امریکیوں کے برعکس کون ہے جو ان کے مطابق ’زندگی، خوشی، دولت، طاقت‘ چاہتا ہے، جب کہ ایشیائی ’سختی کے ساتھ، دولت کی بربادی اور جانوں کے ضیاع کو قبول کرتے ہیں‘ اور امریکہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی ’تزویراتی منطق کو اس کے انجام تک پہنچائیں، جو کہ ایک صریح نسل کشی ہے۔‘یہ ہیبت ناک بوجھ، جسے ’غیر جھجکتے‘برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اتنے سالوں بعد ایک اور نسل کشی کا ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ہم یہاں ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی ’بے خوف‘اور مسلسل ٹیلیویژن پر دکھائی جانے والی غزہ اور اب لبنان میں نسل کشی جو کہ نوآبادیاتی قبضے اور ایک نسل پرست ریاست کے دفاع میں ہے۔ اب تک ہلاکتوں کی سرکاری تعداد 42,000 ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو عمارتوں، محلوں، پورے شہروں کے ملبے کے نیچے چیختے ہوئے مر گئے، اور وہ جن کی لاشیں ابھی تک برآمد نہیں ہو سکیں۔ آکسفیم کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں اتنے بچے مارے گئے جتنے پچھلے 20 سالوں میں کسی اور جنگ کے برابر عرصے میں بھی نہیں مارے گئے۔
اجتماعی جرم کو دور کرنے کی خاطر اپنے ابتدائی سالوں میں ایک نسل کشی کی طرف عدم توجہی کا شکار ہونے کے بعد(نازیوں کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی)امریکہ اور یورپ نے ایک اور نسل کشی کی راہ ہموار کی ہے۔ تاریخ میں ہر وہ ریاست جو نسلی صفائی اور نسل کشی کی مرتکب ہو چکی ہے۔ اسرائیل کے وہ صہیونی جو خود کو’منتخب لوگ‘ سمجھتے ہیں، انہوں نے فلسطینیوں کو غیر انسانی تصور کرنے کے بعد ان کی زمین سے بے دخل کر کے اور انہیں ملیامیٹ کرنے سے اپنی مہم کا آغاز کیا۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم مینیکم بیگن نے فلسطینیوں کو ’دو ٹانگوں والے درندے‘کہا تھا۔ ایک اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم یِتزاک رابین نے انہیں ’ٹڈی دل‘ قرار دیا، جنہیں کچلا جا سکتا ہے۔ اسی کے مصداق ایک دوسری سابق اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیر نے بیان کیا کہ’فلسطینیوں کی طرح دوسری کوئی چیز نہیں۔‘ سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل، جو فاشزم کے خلاف معروف جنگجو کے طور پر جانے جاتے تھے، نے کہاکہ ’میں یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوں ایک کتا جو چرنی (مینجر) میں بیٹھا ہے، خواہ وہ وہاں بہت عرصے ہی سے کیوں نہ بیٹھا ہو، اس چرنی پہ آخری حق اس کتے کا ہے۔‘ پھر انھوں نے علانیہ انداز میں کہا کہ ’ایک ’اعلیٰ نسل‘ کا ہی چرنی پہ حتمی حق تھا۔‘ ایک بار جب دو ٹانگوں والے درندے، ٹڈیاں، کتے اور غیر موجود لوگ قتل کر دیے گئے، نسلی صفائی کر دی گئی اور انہیں گھیٹو میں ڈال دیا گیا، تو ایک نیا ملک ظہور میں آیا۔ اسے ایک ’ایسی (بے آب و گیاہ و نفس) سرزمین جس پر کوئی لوگ نہ ہوں، اور ان لوگوں کے لیے جن کے پاس کوئی منطقہ نہ ہو‘ کے طور پر منایا گیا۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ریاست کو امریکہ اور یورپ کے لیے مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل، دولت تک فوجی اڈے اور دروازے کے طور پر خدمات انجام دینا تھیں۔ یہ اہداف اور مقاصد کی ایک خوبصورت اتفاقی امتزاج ہے۔ اس نئی ریاست کی ’بغیر ہچکچاہٹ‘اور’دیدہ دلیری‘سے حمایت کی گئی۔ اسے مسلح کیا گیا۔ اسے مالی مدد فراہم کی گئی۔ ناز و نعم میں پالا گیا اور اس کی داد و تحسین سے حوصلہ افزائی کی گئی، خواہ اس نے جو بھی سب و شتم کیے ہوں۔ یہ ایک امیر گھرانے کے بچے کی مانند پرورش پائی، جس کے والدین بچے کو فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہیں، لہلوٹ ہو جاتے ہیں،بالخصوص جب وہ ایک کے بعد ایک ظلم کرتا ہے۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ آج وہ نسل کشی کرنے کا برملا دعویٰ کرنے اور شیخی بگھارنے میں آزاد محسوس کرتا ہے۔ (کم از کم پینٹاگون پیپرز خفیہ تھے۔ انہیں چوری کرنا پڑا تھا۔ بعد ازاں انہیں فاش کیا گیا۔)
اس میں کوئی انوکھا پن نہیں کہ اسرائیلی افواج اپنی تمام انسانیت اور شائستگی کی حس کو کھو چکے ہیں۔ اس میں تعجب کی قطعا کوئی بات نہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی غلیظ ویڈیوز شیئر کرتے ہیں، جس میں وہ ان خواتین کے زیرجامے (انڈرویئرز) پہنے ہوئے ہیں جنہیں انہوں نے قتل کیا یا بے زمین کیا ہے۔ وہ انتہائی سرد مہری کا مظہر بنے، مرتے ہوئے فلسطینیوں، زخموں سے کٹے پھٹے بچوں یا ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے والے قیدیوں کی نقل اتار رہے ہیں۔ وہ عمارتوں کو دھماکے سے اڑاتے وقت سگریٹ پیتے یا اپنے ہیڈفون پر موسیقی سنتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ کیا چیز اسرائیل کے اس عمل کا ممکنہ جواز پیش کر سکتی ہے؟ اسرائیل، اس کے اتحادیوں اور مغربی میڈیا کے مطابق جواب 7 اکتوبر کو حماس کا اسرائیل پر حملہ ہے۔ اسرائیلی شہریوں کو قتل اور انھیں یرغمال بنایا جانا ہے۔ ان کے مطابق تاریخ کا آغاز محض ایک سال قبل ہوا ہے۔
میری تقریر میں یہ وہ حصہ ہے جہاں مجھ سے توقع کی جاتی ہے کہ میں اپنے تحفظ، اپنی ’غیرجانبداری‘ اور اپنے فکری معیار کو بچانے کی خاطر متضاد بات کروں۔ یہ وہ حصہ ہے جہاں مجھ سے آس رکھی جاتی ہے کہ میں اخلاقی برابری کی بات کرتے ہوئے حماس، غزہ میں دوسرے مسلح گروہوں اور لبنان میں ان کی اتحادی جماعت حزب اللہ کی جانب سے شہریوں کے قتل اور لوگوں کو یرغمال بنانے کی مذمت کروں، اور ان غزہ کے لوگوں کی عیب گیری کروں، ہجو کہوں جنہوں نے حماس کے حملے کا جشن منایا۔ جب یہ سب کچھ ہو جائے تو سب کچھ آسان ہو جاتا ہے، کیا ایسا ہی ہے نا؟ خیر، سب ہی خوف ناک ہیں، کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس کی بجائے چلیے خریداری کرنے چلتے ہیں۔۔۔۔
میں اس لائقِ ملامت کھیل کو کھیلنے سے انکار کرتی ہوں۔ میں یہ خود واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ میں ظلم رسیدہ اور ستائے ہوئے لوگوں کو یہ نہیں بتاتی کہ انہیں، ان پہ رواں رکھے جانے والے ظلم کے خلاف کیسے سینہ سپر ہونا چاہیے یا ان کے اتحادی کون ہونے چاہئیں۔ جب امریکی صدر جو بائیڈن نے (اسرائیلی) وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور اسرائیلی جنگی کابینہ سے اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے دورے کے دوران ملاقات کی، تو انہوں نے کہاکہ ”میں یہ یقین نہیں کرتا کہ آپ کو صہیونی ہونے کی خاطر یہودی ہونے کی ضرورت ہے، اور میں ایک صیہونی ہوں۔“ صدر جو بائیڈن کے برعکس، جو خود کو غیر یہودی صیہونی کہتے ہیں اور اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم کا مرتکب ہوتے وقت بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مالی امداد اور اسلحہ فراہم سے دریغ نہیں کرتے، میں اپنے آپ کا اس صورت اعلان نہیں کر رہی اور نہ ہی کسی بھی صورت خود کو اس طور متعین کرنے والی ہوں جو کہ میری لکھائی یا مطبوعہ حروف سے کم ہے۔ میں وہی ہوں جو میں لکھتی ہوں۔
میں بخوبی بلکہ بہت باریک حد تک اس بات سے آگاہ ہوں کہ لکھاری ہونے کے ناتے جو کہ میں ہوں، غیر مسلم جو کہ میں ہوں اور عورت جو کہ میں ہوں، میرے لیے حماس، حزب اللہ یا ایرانی حکومت کے زیرِ اقتدار زیادہ دیر تک سلامت (زندہ) رہنا مشکل، شاید ناممکن ہو، لیکن یہاں یہ نکتہ اہم نہیں ہے،لیکن یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں خود کو تاریخ اور ان حالات کے بارے میں تعلیم دینی چاہیے جن کے تحت وہ وجود میں آئے تھے۔
مدعا یہ ہے کہ ابھی وہ ایک مسلسل جاری نسل کشی کے خلاف شمشیر بہ کف ہیں۔ خود سے پوچھے جانے والی بات یہ ہے آیا کہ ایک آزاد خیال، سیکولر جنگی قوت (فائٹنگ فورس) نسل کش جنگی مشین کے خلاف سینہ تان کر کھڑی ہو سکتی ہے؟ کیونکہ، جب دنیا کی تمام طاقتیں ان کے خلاف آماہئ پیکار ہیں، تو وہ سوائے خدا کے کس کی طرف رجوع کریں گے؟ میں علم رکھتی ہوں کہ حزب اللہ اور ایرانی حکومت، ان کے اپنے ممالک میں سخت مخالفین موجود ہیں، ان میں سے کچھ بندی خانوں میں اذیت میں مبتلا ہیں یا ان کا حال اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ میں جانتی ہوں کہ ان کے کچھ اقدامات، جیسا کہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو شہریوں کا قتل اور لوگوں کو یرغمال بنانا، جنگی جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم اس میں اور جو اسرائیل اور امریکہ غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں کر رہے ہیں، کے درمیان کسی طرح کی برابری قائم نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ تشدد کی جڑ، جس میں 7 اکتوبر کا تشدد بھی شامل ہے، اسرائیل کا فلسطینی زمین پر(ناجائز) قبضہ اور فلسطینی عوام کو زیر کرنے کی کوشش ہے۔ تاریخ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 سے شروع نہیں ہوا۔
میں آپ سے پوچھتی ہوں، ہم میں سے کون، جو اس ہال میں براجمان ہیں،اپنی مرضی و منشا ء سے ان رسوائیوں کو برداشت کرے گا،جن کا سامنا فلسطینی غزہ اور مغربی کنارے میں دہائیوں سے کر رہے ہیں؟ کون سا پرامن طریقہ ہے جو فلسطینی عوام نے نہیں اپنایا؟ کون سا سمجھوتا ہے جسے انہوں نے قبول نہیں کیا، سوائے اس کے جو ان سے گھٹنوں کے بل چلنے اور مٹی کھانے کو ضروری کہتا ہے؟ اسرائیل اپنے دفاع کی جنگ نہیں لڑ رہا ہے۔ یہ بربریت و بہیمیت کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کا علمبردار ہے۔ زیادہ زمین پر قبضہ کرنے، اپنے نسل پرست نظام کو قوی کرنے، فلسطینی عوام اور خطے پر اپنا کنٹرول سخت کرنے کے لیے ایک ایک جنگ کا میدان سجائے ہوئے اس کے طبل بجا رہا ہے اور کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد سے ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود اسرائیل نے غزہ کی کثیر آبادی کو بے گھر کیا اور یہ اس بے رحم شغل کا پہلے بھی کئی بار ارتکاب کر چکا ہے۔ اس نے ہسپتالوں پر بمباری کی ہے۔ اس نے جان بوجھ کر ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کا تاک کر نشانہ باندھا اور انھیں قتل کیا ہے۔ اب پوری آبادی کو فاقوں سے مارا جا رہا ہے، ان کی تاریخ کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ دنیا کی سب سے امیر اور طاقتور حکومتوں کی اخلاقی اور مادی حمایت کی بدولت ممکن ہو رہا ہے۔ اور اس سلسلے میں میڈیا بھی ان کا حواری بنا ہوا ہے۔ (یہاں میں اپنے ملک بھارت کو بھی شامل کرتی ہوں،جو اسرائیل کو ہتھیار اور ہزاروں مزدور فراہم کرتا ہے۔) ان ممالک اور اسرائیل کے درمیان کوئی بین فرق نہیں ہے۔ سب سیاہ ہے۔
محض پچھلے برس میں امریکہ نے اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں 17 اعشاریہ 9 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ لہٰذا آئیے ایک بار اور ہمیشہ کے لیے اس جھوٹ کوختم کرتے ہیں۔امریکہ کوئی ثالث ہے، روکنے والی قوت ہے، یا جیسا کہ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز (جنہیں امریکی سیاست کی انتہائی بائیں بازو کی شخصیت سمجھا جاتا ہے) نے کہاکہ ’جنگ بندی کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔‘ تاہم نسل کشی میں شریک کبھی بھی ثالث نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی تمام طاقت اور دولت، دنیا کے تمام ہتھیار اور پروپیگنڈا اب فلسطین کے زخم کو مزید نہیں چھپا سکتے۔ وہ زخم جس سے پوری دنیا، بشمول اسرائیل، خون بہا رہی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے عیاں ہوتا ہے کہ ان ممالک کے شہریوں کی اکثریت، جن کی حکومتیں اسرائیلی نسل کشی کو ممکن بنا رہی ہیں، واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ وہ اس (نسل کشی) سے متفق نہیں ہیں۔ ہم نے ان ہزاروں لوگوں کے مارچ دیکھے ہیں، جن میں یہودیوں کی ایک نوجوان نسل بھی شامل ہے، جو جھوٹ سنتے سنتے تھک چکی ہے، جھوٹ بولنے سے عاری آ چکی ہے۔
کسی نے کبھی تصور بھی کیا تھا کہ ہم وہ دن دیکھیں گے جب جرمن پولیس اسرائیل اور صیہونیت کے خلاف احتجاج پر مائل یہودی شہریوں کو گرفتار کرے گی اور ان پر یہود دشمنی کا الزام لگائے گی؟ کس نے سوچا تھا کہ امریکی حکومت اسرائیلی ریاست کی خدمت میں اپنے آزادی اظہار کے بنیادی اصول کو، خود اپنے ہاتھوں تار تار کرے گی اور فلسطین کے حق میں نعرے لگانے پر پابندی لگائے گی؟ مغربی جمہوریتوں کی نام نہاد اخلاقی ساخت، چند معزز استثناؤں کے ساتھ، دنیا کے باقی حصے میں ایک افسوسناک مذاق بن چکی ہے۔ جب بنجمن نیتن یاہو مشرق وسطیٰ کا ایک ایسا نقشہ اٹھاتے ہیں جس میں فلسطین کو چھیل کر نابود کر دیا گیا ہے اور اسرائیل دریا سے سمندر تک محیط ہے، پھیلا ہوا ہے، تو انہیں ایک خواب دیکھنے والے کے طور پر سراہا جاتا ہے، جو یہودی وطن کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے سلسلے میں کام کر رہا ہے۔تاہم جب فلسطینی اور ان کے حمایتی نعرہ لگاتے ہیں کہ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا‘، تو ان پر یہودیوں کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے کا واضح الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔
کیا وہ واقعی ہیں؟ یا یہ ایک بیمار ذہن کی تخیلاتی پراجیکشن ہے، جو اپنی تاریکی کو دوسروں پر منطبق کر رہا ہے؟ ایک ایسا تخیل جو تنوع اور تکثیریت کو برداشت نہیں کر سکتا، جو اس خیال کو سہار نہیں سکتا کہ ایک ملک میں دوسرے لوگوں کے ساتھ، برابری کا رویہ اختیار کرتے ہوئے، برابر حقوق کے ساتھ رہنا ممکن ہو۔ جیسے دنیا کے باقی سب لوگ کرتے ہیں۔ ایک تخیل جو یہ ماننے کی ہمت نہیں رکھتا کہ فلسطینی آزادای کا پروانہ چاہتے ہیں، جیسے جنوبی افریقہ آزادی کی فضاء میں سانس لیتا ہے، جیسے بھارت آزاد ہے، جیسے تمام ممالک جو نوآبادیاتی غلامی کے طوق گردنوں سے اتار پھینک کر آزاد ہو چکے ہیں۔ وہ ممالک جو متنوع ہیں، گہرے، شاید مہلک حد تک، خامیوں سے بھرپور ہیں، بہر کیف آزاد ہیں۔ جب جنوبی افریقی لوگ اپنا مقبول نعرہ ’آمانڈلا‘ (عوام کو طاقت) لگا رہے تھے، تو کیا وہ سفید فام لوگوں کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے تھے؟ وہ ایسا قطعا نہیں کر رہے تھے۔ وہ محض نسل پرستی کے نظام کے کنگرے گرا دینے اور اسے ختم کر دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے فلسطینی کر رہے ہیں۔
اب جو جنگ شروع ہو چکی ہے، وہ بہت بھیانک ہوگی، لیکن آخر کار یہ اسرائیلی نسل پرستی کے نظام کو (اپنی لپیٹ میں لے کر) ختم کر دے گی۔ پوری دنیا ہر ذی نفس کے لیے بہت زیادہ محفوظ و مامون ہوگی، بشمول یہودی لوگوں کے لیے اور انصاف کا دور دورہ ہو گا۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے ہمارے زخمی دل سے تیر کو باہر نکال لیا جائے۔
اگر امریکی حکومت اسرائیل کی حمایت کرنا چھوڑ دے تو یہ جنگ آج ہی رک سکتی ہے۔ دشمنیاں اسی لمحے تحلیل ہو سکتی ہیں۔ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا اور فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وہ مذاکرات جو بالآخر جنگ کے بعد ہوں گے، اب بھی ہو سکتے ہیں،جو لاکھوں لوگوں کی تکلیف کو روک سکتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے ایک سادہ، دیوانے کی بڑ، ہنسی مذاق کے قابل تجویز خیال کریں گے۔
جیسے ہی اپنی بات ختم کرنے کی جانب گامزن ہوتی ہوں تو، علاء عبد الفتاح، میں آپ کے کہے ہوئے حروف سے رجوع کرتی ہوں، آپ کی زنداں خانے میں تخلیق کی گئی تحاریر پر مشتمل کتاب ”تم ابھی تک شکست نہیں کھائے ہوئے ہو“ سے میں نے فتح و شکست کے معنی اور مایوسی کا ایمانداری سے سامنا کرنے کی سیاسی ضرورت کے بارے میں شاذ و نادر ہی اتنے خوبصورت الفاظ پڑھے ہیں۔ میں نے باید ہی ایسی تحریر دیکھی ہے جس میں ایک شہری خود کو ریاست سے، جرنیلوں اور یہاں تک کہ اسکوائر کے نعروں سے اتنی گھنٹی کی سی واضح آواز کی مانند الگ کیا ہو۔
”مرکز محض غداری ہے کیونکہ اس میں صرف جنرل کے لیے جگہ ہے۔۔۔۔مرکز جائے غداری ہے اور میں کبھی غدار نہیں رہا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں حاشیے میں دھکیل دیا ہے۔ انہیں اندازہ نہیں کہ ہم اسے کبھی چھوڑ کر گئے ہی نہیں تھے، ہم تو بس کچھ دیر کے لیے کھو گئے تھے۔ نہ تو بیلٹ بکس، نہ محلات، نہ وزارتیں، نہ جیلیں اور نہ ہی قبریں بڑی جگہیں ہیں،جہاں ہمارے قوی الجثہ مگر عظیم خواب سما سکیں۔ ہم نے کبھی مرکز کی تلاش نہیں کی، کیونکہ اس میں صرف ان کے لیے جگہ ہے جو خواب ترک کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسکوائر بھی ہمارے لیے کافی نہیں تھا، اس لیے انقلاب کی زیادہ تر لڑائیاں اس کے باہر ہوئیں، اور زیادہ تر ہیرو فریم کے باہر رہے۔“
جیسی وحشت اور خوف ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں، اور اب لبنان بھی ان شعلوں کی لپیٹ میں ہے، اورتیزی سے ایک علاقائی جنگ میں بدل رہا ہے، اس کے حقیقی ہیرو فریم سے باہر رہتے ہیں، لیکن وہ لڑتے رہتے ہیں، برسرِ پیکار رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا سے سمندر تک
فلسطین آزاد ہوگا۔
یہ ہوگا۔
اپنی نظر، گھڑی پر نہیں، بلکہ اپنے کیلنڈر پر مرکوز کیے رکھو۔
یہی وہ طریقہ ہے جس سے لوگ(جرنیل نہیں)عوام، جو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے ہیں، وقت کو ناپتے ہیں۔
(بشکریہ: ’ڈان‘، ’دی وائر‘، ترجمہ: سید عدیل اعجاز)