جلبیر اشقر
7 اکتوبر 2023 کے روز حماس کا جوابی حملہ۔۔۔جو 1973 میں ہونے والی ایک اور عرب اسرائیل جنگ کے پچاس سال پورے ہونے پر کیا گیا۔۔۔1973والی جنگ سے بھی زیادہ کاری تھا۔ 1973 میں دو عرب ممالک،مصر اور شام، نے مل کر اسرائیل پر غیر متوقع حملہ کیا تھا جس کا مقصد ان مقبوضہ عرب علاقوں کو واگزار کرانا تھا جو 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے چھین لئے تھے جبکہ حماس کے حالیہ حملے نے انجیل مقدس میں بیان کی گئی حضرت داود اور دیو ہیکل جالوت کے مابین لڑائی کا قصہ یاد دلا دیا ہے۔ ہوائی، بری اور بحری راستوں کا استعمال کرتے ہوئے۔۔۔جس نے جالوت کی تلوار کے مقابلے پرحضرت داود کی غلیل یاد دلا دی۔۔۔حماس کے جنگجو غزہ اور اسرائیل کی سرحد کے درمیان واقع علاقے میں حملہ آور ہوئے۔
جس طرح 1973 میں اسرائیل کی غرور بھری خود اعتمادی عرب حملے کے نتیجے میں پاش پاش ہوئی تھی عین اسی طرح اسرائیل جس غرور اور بے فکری سے فلسطینی عوام اور گورایلا جنگجووں سے نپٹ رہا تھا، اس تازہ حملے نے اس غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو حماس کے اس حملے نے اسرائیل کے شہریوں اور اسرائیلی ریاست کو ایک زور دارپیغام دیا ہے کہ وہ محفوظ نہیں ہیں اور یہ کہ امن کے بغیر تحفظ، انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں۔
اسرائیلی ریاست کے خلاف حماس نے حملے کا جو فیصلہ کیا،اس بارے کوئی کچھ بھی سوچے۔۔۔کیونکہ اس کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست بدلے مین قتل و غارت کا بازار بھی گرم کرے گی جبکہ غزہ سے حماس اور اس کے اتحادیوں کے خاتمے کے نام پر لا تعداد سویلین شہریوں کو بھی ہلاک کرے گی۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ حماس کے اِس جوابی وار نے اسرائیل کی نسل پرست،دائیں بازو والی اُس حکومت کا غرور ایک بار تو خاک میں ملا دیا ہے جس کا خیال تھا کہ وہ فلسطین کے عوام پر مسلسل جبر۔۔۔جسے مسلسل النکبہ کہا جا سکتا ہے،ایک ایسی النکبہ جس کے نتیجے میں عرب علاقے چھینے جا رہے ہیں، نسلی صفائی ہو رہی ہے،اپارتھائڈ مسلط کیا جا رہا ہے۔۔۔کے باوجود اپنے ارد گرد کے ماحول میں ایک نارمل ریاست بن کر ابھر سکتی ہے۔
جس طرح سے مغربی حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ اظہار ِیکجہتی کیا ہے وہ بھی ناقابل ِبرداشت ہے (اس میں یوکرین کی حکومت بھی شامل ہے، اسے تو کم از کم اندازہ ہونا چاہئے تھا کہ بیرونی قبضہ کیا ہوتا ہے)۔یہ ردعمل اس وقت دیکھنے کو نہیں ملتا جب اسرائیل فلسطینیوں پر حملہ کرتا ہے۔ 7 اکتوبر کی شام جرمنی کے برانڈنبرگ گیٹ پر اسرائیل کا پرچم لہرایا گیاتا کہ اسرائیلی ریاست کو خوش کیا جا سکے۔یورپی یہودیوں کے خلاف نازی جرائم پر پچھتاوے کا اظہار کرنے کے لئے جرمنی کے غلط طریقہ کار کی یہ ایک اور علامت تھی۔ پچھتاوے کاجرمن طریقہ کار یہ ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کی ہر ممکن حمایت کی جا ئے۔جرمنی کی یہ حرکت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی کہ جب حکومت فار رائٹ کی قوتوں پر مشتمل ہے۔ حکومت میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں ہولوکاسٹ کے ایک اسرائیلی تاریخ دان نے اسرائیلی اخبار’ار’ہارٹز‘ میں شائع ہونے والی ایک مضمون میں نئیو نازی قرار دیا تھا۔
ایسی ’تجزیہ نگاری‘ بھی شرمناک ہے جس کے مطابق حماس کا یہ حملہ ایران کی کارستانی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔اس تجزئیے کے مطابق، حماس کے جوابی حملے کا مقصد سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین،امریکہ کی چھتر چھایا تلے،ہونے والی صلح کی کوششوں کو نقصان پہنچانا تھا۔ ایسا کوئی بھی تجزیہ قائل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر اسرائیل سعودی صلح ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں ایران خود کو صیہونیت دشمنی کا واحد چیمپئین بنا کر پیش کر سکتا ہے۔ اس طرح کے سازشی نظریات نہ صرف فلسطینی لوگوں کی صلاحیت (ایجنسی)سے انکار کے مترادف ہیں بلکہ یہ اُسی قسم کے سازشی نظریات ہیں جو عوامی بغاوتوں کے موقع پر پھیلائے جاتے ہیں۔ ہر عوامی تحریک بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور ہے۔ اس نوع کے تجزئیے سے یہ باور کرانا بھی مقصود ہے گویا فلسطین کی کوئی حقیقی شکایات نہیں ہیں، اگر اتنا بڑا حملہ ہوا ہے تو اس کے پیچھے کوئی بیرونی حکومت ہی ہو سکتی ہے۔
جس شخص کو بھی اندازہ ہے کہ اہل ِ فلسطین دہائیوں سے جبر کا شکار ہیں، غزہ جس پر1967 میں قبضہ ہوا جو 2005 تک جاری رہا۔۔۔ایک کھلی جیل بن کر رہ گیا ہے،اسرائیل اِس کھلی جیل میں جب چاہے ’شکار‘ کر سکتا ہے۔۔۔اس شخص کے لئے یہ بات حیران کن نہیں کہ اگر حماس کے تازہ حملے جیسے نیم مجنونانہ حملے بار بار نہیں ہوتے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی جالوت فوجی لحاظ سے فلسطینی داود کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہے۔حماس کا تازہ جوابی وار دراصل وارسا میں ہونے والی اس بغاوت کی یاد دلاتا ہے جو 1943 میں یہودی نشیں محلے میں ہوئی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینیوں کے لئے اس تازہ حملے کا نتیجہ بہت برا ہو گا۔بالخصوص غزہ،خاص کر حماس کو جو قیمت چکانی پڑے گی وہ اسرائیل کو ہونے والے نقصان کی نسبت کہیں زیادہ ہو گی۔اسرائیل فلسطین کے مابین ہونے والی ہر لڑائی کا نتیجہ یہی نکلا ہے۔تازہ حملے کے جواز کے طور پرحماس کا یہ کہنا کہ ’بس بہت ہو چکا‘ سمجھ میں آتا ہے لیکن اس حملے کے نتیجے میں اہل ِفلسطین کو کوئی فائدہ ہو گا، یہ بات مشکوک ہی لگتی ہے ما سوائے اس کے کہ اسرائیل کا غرور ٹوٹا ہے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔اسرائیل کا غرور توڑنے کے لئے فلسطین کو اسرائیل کی نسبت کہیں بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔
یہ خیال کہ اس طرح کے حملے سے،جو بلاشبہ بہت کاری تھا، فتح حاصل کی جا سکتی ہے درحقیقت اس نوع کی جادوئی سوچ سے ہی جنم لے سکتی ہے جو حماس جیسی بنیاد پرست تحریک کا خاصہ ہے۔ حماس کے محکمہ نشر و اشاعت نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں حماس رہنما 7 اکتوبر کی صبح شکرانے کے نفل ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ویڈیو اس سوچ کی بہترین عکاس ہے۔ بد قسمتی سے کوئی بھی جادو اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا کہ اسرائیل کو فوجی برتری حاصل ہے۔ غزہ کے خلاف اسرائیل کا نیا حملہ بہت خونی ثابت ہونے والا ہے۔
گیارہ ستمبر کو نیو یارک اور واشنگٹن کے خلاف ہونے والے کاری حملوں نے امریکہ کا غرور خاک میں ملایا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صدر بش کی مقبولیت میں زبر دست اضافہ ہوا۔اس حملے کے اٹھارہ ماہ بعد،صدر بش نے عراق پر قبضہ کر لیا جو کہ صدر بش کا ایک نصب العین پہلے سے ہی تھا۔ حماس کے جوابی حملے کے نتیجے میں بری طرح تقسیم کا شکار اسرائیلی ریاست اور معاشرہ متحد ہو گئے ہیں۔اس حملے کے نتیجے میں نیتن یا ہو کو موقع ملے گا کہ وہ فلسطین کی فلسطینی علاقوں سے بے دخلی کے لئے ایسا ایسا جبر کا ہتھکنڈہ استعمال کر ے جس کا پہلے اس نے صرف سوچا تھا۔
دوسری جانب،اگر حماس کا یہ خیال ہے کہ حزب اللہ (جس کی پشت پر ایران کھڑا ہے) اس جنگ میں اس کا ساتھ دے گی تو یہ ایک خطرناک جوا ہے۔نہ صرف، یہ واضح نہیں کہ حزب اللہ اسرائیل سے کسی نئی لڑائی کے لئے تیار ہے،اگر ایسا ہوا بھی تو اسرائیل اپنے خوفناک اسلحے (بشمول ایٹمی اسلحے)کا بھر پور استعمال کرے گا۔یوں ایک تاریخی نوعیت کی تباہی جنم لے سکتی ہے۔
فوجی لحاظ سے برتری رکھنے والے حریف کا مقابلہ کرنے کے لئے اہل فلسطین کے لئے بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اس میدان میں جنگ لڑیں جہاں وہ اپنے حریف کی برتری کا توڑ کر سکتے ہیں۔فلسطینی جدوجہد اپنی انتہا کو پہلی انتفادہ کے دوران 1988 میں پہنچی تھی۔پہلی انتفادہ کے دوران فلسطین نے جان بوجھ کر مسلح مزاحمت کا راستہ نہیں اپنایا۔اس کے نتیجے میں اسرائیل کی ریاست اور معاشرے میں زبردست بحران پیدا ہوا جو اخلاقی نوعیت کا بحران تھا۔اسرائیلی فوج بھی گومگو کا شکار ہو گئی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل کے رہنما رابن اور پیریز نے مجبوراََیاسر عرفات کے ساتھ 1993 مین اوسلو معاہدے کاراستہ اختیار کیا۔اوسلو معاہدی بھلے بہت جامع نہ تھا، جس کی وجہ فلسطینی قیادت کی یہ خامی تھی کہ ان کی خواہشیں خقیقت سے میل نہ کھاتی تھیں۔
اسرائیل کی جانب سے عرب علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی،جبر اور قبضے کے خلاف فلسطینی قیادت کو چاہئے کہ بنیادی طور پر وہ عوامی سیاسی ایکشن پر انحصار کرے۔جنین اور نابلس میں نوجوان فلسطینیوں کی زیر زمین مزاحمت اس نوع کی عوامی سیاسی تحریک کا اہم جزو ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ کہ عوامی تحریک کو ترجیع دی جائے اور اسے بڑھاوا دیا جائے۔اہل ِفلسطین ایران کی جابرانہ حکومت پر انحصار کرنے کی بجائے ان آمریتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگوں پر انحصار کریں۔فلسطین کی حقیقی آزادی کا امکان اسی انحصار میں پنہاں ہے۔پھر یہ کہ فلسطین کی آزادی کے لئے اسرائیل کو صیہونیت سے آزاد کرانا ہو گا۔صیہونیت کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسرائیل مزید سے مزید دائیں جانب جھکتا جا رہا ہے۔
(ترجمہ: فاروق سلہریا)