عمران کامیانہ
عبوری حکومتوں کا عمومی نصب العین مقررہ وقت میں عام انتخابات کرواتے ہوئے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے رخصت ہو جانا ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کی ادھوری جمہوریت میں بھی نگران حکومتیں بالعموم غیر جانبدار ہونے اور اپنے کام سے کام رکھنے کا تاثر دیتی ہے۔ لیکن یہ نظام ایسے جمہوری تکلفات و رسومات کا لحاظ تب تک ہی رکھتا ہے جب معاشرے کو ترقی دینے اور عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے قابل ہو۔ معاشی ابھار کے ایسے ادوار میں حکمران طبقات کے آپسی تنازعات بھی عام طور پر ماند پڑ جاتے ہیں کیونکہ تمام دھڑے بڑھتی ہوئی سماجی دولت میں سے حصہ بقدر جثہ وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن بحران کے حالات میں جہاں یہ حکمران ایک دوسرے پر وحشی درندوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں وہاں محنت کش طبقات پر مسلسل معاشی، سماجی و سیاسی حملے بھی ناگزیر ہو جاتے۔ ایسے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے لبادے بھی تار تار ہو جاتے ہیں اور ننگے طبقاتی جبر و استحصال کا خونی رقص جاری ہو جاتا ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری اپنی پسماندگی، نااہلی اور تاخیرزدگی کی وجہ سے یوں تو روزِ اول سے ہی ان حالات سے دوچار ہے لیکن وقت کے ساتھ ریاستی جبر، ڈھٹائی، دھونس اور گھٹن کی یہ کیفیت شدید تر ہی ہوتی گئی ہے۔ یہ سلسلہ 2008ء کے بعد آنے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی جاری رہا ہے۔ عمران خان پراجیکٹ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی جس کی حکومت میں حالات براہِ راست مارشل لاؤں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ لیکن اس پراجیکٹ کی ناکامی معاشی و سیاسی بحران کو مزید گہرا کرنے کا ہی موجب بنی جس کے بعد اب اس عبوری حکومت کو ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے جس کے پاس عملی طور پر منتخب حکومتوں سے بھی زیادہ اختیارات موجود ہیں۔ اس مقصد کے لئے 26 جولائی 2023ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے الیکشن ایکٹ میں خصوصی ترمیم کروائی گئی اور اس واردات میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام مروجہ پارٹیاں شامل تھیں۔ ڈیپ سٹیٹ کے انتہائی قابل اعتماد بندے، جو اپنی بات چیت سے ریاست کا نظریہ دان معلوم ہوتا ہے، کی قیادت میں یہ عبوری حکومت انتخابات کے انعقاد کے علاوہ سب کچھ کر رہی ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے پروگرام کو انتہائی جبر سے لاگو کیا جا رہا ہے جس کے لئے پٹرول اور بجلی کی مہنگائی کی انتہا کر کے عام لوگوں کی زندگیوں کو عذاب بنا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف مستقبل کے سیاسی و ریاستی منظر نامے کی تشکیل کے لئے ہر قسم کا جوڑ توڑ اور تعیناتیاں جاری ہیں۔ ایسے ہی غیرمقبول اور جابرانہ اقدامات کے تسلسل میں اب ملک کی موجودہ تباہ کن صورتحال کا ملبہ افغان مہاجرین پر ڈال کر انہیں ملک بدر کرنے کا فرمان بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ بالکل وہی موقف اور وہی رویہ ہے جو ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ٹرمپ جیسے رجعتی ترین حکمران اور انتہائی دائیں بازو کے فسطائی گروہ پاکستان جیسے ممالک کے مہاجرین کے خلاف اپناتے ہیں۔
پاکستان میں افغانستان سے ہجرت کی جدید تاریخ تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہے جس کا آغاز 1978ء کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے امریکی سامراج کی جانب سے شروع کیے گئے ڈالر جہاد سے ہوتا ہے۔ افغانستان کو کھنڈر بنا دینے والے اس سارے سامراجی فساد میں مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خلیجی ممالک کی ریاستیں پیش پیش تھیں۔ اپنے ملک میں مسلسل خانہ جنگی اور خونریزی کے پیش نظر لاتعداد افغان شہری دوسرے ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن ان کی اکثریت نے پاکستان کا رخ کیا۔ اوائل میں سرکاری سطح پر اپنائے گئے جہاد کے مذہبی بیانیے اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کی بے شمار امداد کے پیش نظر پاکستانی حکومت نے انہیں خوش آمدید کہا اور وسیع و عریض مہاجر کیمپ آباد کیے گئے۔ ان کے بچوں کو امریکی سی آئی اے کی طرف سے شائع کردہ بنیاد پرستانہ نصاب پڑھائے گئے اور لاتعداد نوجوانوں کو افغانستان میں جاری امریکی ڈالر جہاد کا ایندھن بنایا گیا۔ ظاہر ہے کیمپوں سے یہ مہاجرین بتدریج پاکستانی معاشرے میں نفوذ کرتے گئے۔ سوویت فوجوں کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے نئے دور کا آغاز ہوا اور 2001ء میں امریکی حملے کے بعد نئی بربادیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سارے عرصے میں کسی نہ کسی نہج پر افغانستان سے پاکستان ہجرت کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ یہ مہاجرین ہزارہا رشتوں سے پاکستانی معاشرے میں پیوست ہوتے گئے۔ 2021ء میں طالبان کے اقتدار پر قبضے، جس کا جشن پاکستان میں کم و بیش سرکاری سطح پر منایا گیا، کے بعد افغانستان سے ہجرت کے اس سلسلے میں ایک بار پھر تیزی آئی اور صرف اس عرصے میں مزید 6 لاکھ افغان شہری پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ آج پاکستان میں لاتعداد افغان ایسے ہیں جنہوں نے کبھی افغانستان دیکھا بھی نہیں ہے۔ یہ لوگ یہاں ہی پیدا ہوئے ہیں، یہاں کی زبانیں روانی سے بولتے ہیں، یہاں سے ہی ان کا کاروبار اور روزگار وابستہ ہے، یہاں ہی ان کے رشتے ناطے ہیں۔ ان کی اکثریت محنت مزدوری کرنے والے افراد پر مشتمل ہے جو جلاوطنی، مجبوری اور کسمپرسی کے عالم میں مقامی پس منظر رکھنے والے محنت کشوں سے بھی زیادہ اذیت ناک زندگیاں گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد کے حوالے سے مختلف اندازے موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن میں سے 52 فیصد خیبر پختونخوا، 24 فیصد بلوچستان، 14 فیصد پنجاب اور 5.5 فیصد سندھ اور 3.1 فیصد اسلام آباد میں موجود ہیں۔ تاہم الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 19 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں کسی نہ کسی طرح کے قانونی سٹیٹس کے حامل ہیں۔ 17 لاکھ غیر قانونی مہاجرین اس کے علاوہ ہیں جن کی ملک بدری کی کوششیں موجودہ حکومت کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض خطوں میں رجعتی اور زہریلے قسم کے لسانی و قوم پرستانہ رجحانات کی طرف سے پھیلائے جانے والے تاثر کے برعکس پاکستان کے لوگوں کا عمومی رویہ ان مہاجرین کی طرف دوستانہ ہے۔ اسلام آباد میں قائم ’ادارہ برائے پائیدار ترقی‘ (SDPI) کی جانب سے 2018ء میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق افغان مہاجرین کا خیال ہے کہ بلوچستان میں 66 فیصد، خیبر پختو نخواہ میں 63 فیصد، سندھ میں 62 فیصد، اسلام آباد میں 52 فیصد اور پنجاب میں 41 فیصد لوگ ان کی طرف مثبت اور خیرمقدمی جذبات رکھتے ہیں جس کی بنیادی وجہ پھر محنت کشوں اور مظلوموں کی طبقاتی جڑت ہے۔
مشرق ہو یا مغرب‘ دنیا بھر میں تنگ نظر اور رجعتی لسانی عناصر کی جانب سے مہاجرین کے بارے میں ایک سا زہر اگلا جاتا ہے۔ جس میں کبھی مقامی آبادیوں میں بیروزگاری تو کبھی جرائم کا ذمہ دار ان دربدر لوگوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ عناصر آخری تجزئیے میں اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں کا کردار ادا کرتے ہیں جو نہ صرف غربت اور بیروزگاری کی بنیادی وجہ اور ماخذ ہے بلکہ مجبوری کی ہجرتوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ یہ سامراجی ریاستیں دنیا بھر میں بدحالی، تباہ کاری اور جنگوں کو جنم دیتی ہیں اور جب تباہ حال خطوں کے لوگ اپنے گھربار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں تو یہی سامراجی حکمران اور ان کے فسطائی گماشتے انہیں ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔ بہتر معاشی حالات میں تو مہاجرین دوسرے معاشروں میں کسی حد تک جذب ہو جاتے ہیں لیکن بحرانی ادوار میں پھر طبقاتی تضاد کو دبانے کے لئے لسانیت اور تنگ نظر قوم پرستی کو ہوا دی جاتی ہے۔ اس کے لئے مہاجرین کی تعداد اور آبادی میں ان کے تناسب کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور یوں مقامی آبادیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ دنیا کی کل آبادی میں بین الاقوامی مہاجرین کا تناسب صرف 3 فیصد ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی مہاجر کی حیثیت رکھنے والے افراد کا تناسب کبھی 14 فیصد سے اوپر نہیں رہا (یہ الگ بات ہے کہ ایک حوالے سے امریکہ ملک ہی مہاجرین کا ہے)۔ پاکستان کی آبادی میں افغان مہاجرین کا حصہ 0.02 فیصد بھی نہیں بنتا۔ اس کے باوجود ان کی بے دخلی کے لئے ایک انتہائی زہریلی اور جابرانہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ افغانستان کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے سامراجی حکمرانوں نے کئی دہائیوں کی یلغار اور لوٹ مار میں تباہ و برباد کیا ہے۔ اب یہ لوگ جائیں تو جائیں کہاں؟ اور جائیں تو کیوں جائیں؟ طالبان کو افغانستان پہ مسلط کرنے والے کس منہ سے انہیں اپنے ملک واپس جانے کا کہہ سکتے ہیں؟
ان مظلوموں کے ساتھ جو انسانیت سوز رویہ روا رکھا جا رہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانا ہر ذی شعور اور باضمیر انسان کا فریضہ بنتا ہے۔ اس نظام میں سرمائے کی نقل و حرکت تو آزاد ہے لیکن انسانوں کو سرحدوں میں قید کر کے ویزوں کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کسی انسان کا ”غیر قانونی“ سٹیٹس انسانیت کی تذلیل اور توہین کے مترادف ہے۔ دنیا بھر میں محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں اور انقلابی قیادتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مہاجرین کے خلاف قومی و لسانی تعصبات اور انسانیت سوز رویوں کا مقابلہ بھرپور طبقاتی یکجہتی اور جڑت سے کیا جائے اور اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے جو انسانوں کو دربدر کرنے کا باعث بنتا ہے۔