دنیا

فلسطین کیسے آزاد ہو گا؟

پابلو واسکو
 
ترجمہ: عمرعبداللہ
 
موجودہ تنازعے سے پہلے ہی الفتح، جو فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی قائد جماعت بھی ہے اور مغربی کنارے پر حکومت بھی کر رہی ہے، اقوام متحدہ کے مکارانہ دو ریاستی حل سے بھی دستبردار ہو چکی تھی۔ الفتح نہ صرف اپنے لوگوں کے بنیادی حق خود ارادیت سے پیچھے ہٹ چکی تھی بلکہ اس نے صیہونی اسرائیلی ریاست اور پورے فلسطین پر اس کے قبضے کو بھی تسلیم کر لیا تھا۔
 
پی ایل او کا صدر محمود عباس، جو 2005ء سے اب تک مغربی پٹی کا بھی صدر ہے، ہارنے کے ڈر سے لگاتار انتخابات ملتوی کرتا رہا ہے۔ اس پر نہ صرف کرپشن کے الزامات ہیں بلکہ وہ اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کی سیاسی تحریک کو کچلنے میں بھی مصروف ہے۔ حقیقت میں الفتح کا اسرائیلی ریاست سے صرف یہ مطالبہ ہے کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری نہ بنایا جائے۔ یہ ایک ایسی بیوروکریسی کی سمت بندی ہے جو ایک غاصب ریاست کے غلبے کو تسلیم کر چکی ہے۔ یہ پوزیشن ان عرب سرمایہ دارانہ حکومتوں سے بھی بدتر ہے جو اسرائیل کو تسلیم کر چکی ہیں یا عرب عوام اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ محمود عباس اور الفتح کی اس پسپائی نے انہیں انتہائی دائیں بازو کے اس نیتن یاہو کا آلہ کار بنا دیا ہے جس نے اقوام متحدہ کے ایک حالیہ اجلاس میں ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کا نقشہ پیش کیا تھا جس میں فلسطین کا ایک انچ بھی موجود نہیں تھا۔
 
اسرائیلی توسیع پسندی اور ’دو ریاستی‘ فارمولے کا فریب
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد سامراجی بالادستی میں تبدیلی آئی اور برطانوی سامراج کی جگہ امریکہ نے لے لی۔ نازی جبر کے شکار یہودیوں کے بائیں بازو کی طرف رجحان کو روکنے اورمشرق وسطیٰ میں اپنے پیر مضبوط کرنے کے لیے امریکہ نے صیہونی تحریک کی پشت پناہی کی اور اسے فلسطین (جو اس وقت تک برطانیہ کے کنٹرول میں تھا) پر قبضہ کرنے کے لیے ابھارا تاکہ وہاں ایک سامراجی چھاؤنی قائم کی جا سکے۔ چنانچہ 1947ء میں اقوام متحدہ نے تمام طاقتوں بشمول سوویت یونین کی حمایت سے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کافارمولا پیش کیا اور بیت المقدس کو انٹرنیشنل زون قرار دے دیا۔ لیکن 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے وجود میں آتے ہی ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کے گاؤں مسمار کر دئیے گئے اور لاکھوں لوگوں کو بے دخل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ یوں مجوزہ تقسیم سے بھی تقریباً بیس فیصد زیادہ علاقہ اسرائیل کے زیر تسلط آ گیا۔
 
1967ء میں اسرائیل کی متعدد عرب ریاستوں کے ساتھ چھ دن کی جنگ کے بعد اس نے غزہ، مغربی کنارے، مصری سینائی، شام کے علاقے گولان اور سارے ’نیوٹرل‘ بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ صیہونی سیاستدان میرون بین ونستی نے اعلان کیا، ”تو کیا ہوا اگر ہم نے ان علاقوں کو فتح کر لیا؟ ہم جیتنے پر کیوں پشیمان ہوں؟“
 
تب سے لے کر اب تک مغربی کنارے پر مسلسل اسرائیل کا فوجی قبضہ ہے جس کے چاروں اطراف اسرائیل نے دیواریں اور خاردار تاریں بچھائی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری پٹی میں تقریباً 175 چیک پوسٹیں ہیں اور 250 سے زائد یہودی آبادیوں نے اس سارے علاقے کو چھلنی کر رکھا ہے۔ ہر روز فلسطینیوں کو بدترین جبر اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف تک نے ان تمام اقدامات کی مذمت کی ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق ایسے مقبوضہ علاقوں میں آبادکاری جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ یہاں تک کہ 2017ء میں خود اسرائیلی سپریم کورٹ نے بھی اس قانون کو کالعدم قرار دیا تھا جس کے تحت ان یہودی آبادیوں کو قانونی حیثیت دی گئی تھی۔
 
1973ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے سینائی کا علاقہ مصر کو واپس کر دیا اور بدلے میں مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔ یہ سب 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدوں میں امریکہ کی ثالثی کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ 1978ء میں اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا جہاں فلسطینی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پناہ لیے ہوئے تھی۔ 1982ء اور بعد میں بھی اسرائیل نے لبنان پر چڑھائی کا عمل جاری رکھا اور اس کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا جس میں سے کچھ حصہ اس نے لبنان کو واپس لوٹا دیا جبکہ کچھ حصے پر وہ اب بھی قابض ہے۔
 
اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے 1980ء میں مشرقی بیت المقدس اور 1981ء میں شام کے علاقے گولان کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ اسرائیلی ریاست اب تک مشرقی بیت المقدس میں تقریباً دو لاکھ تیس ہزار اور گولان میں بیس ہزار لوگوں کو آباد کر چکی ہے۔ 1999ء میں مقبوضہ فلسطین کی سرحدی حدود میں مجموعی طور پر یہودی آبادکاروں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی جو اب بڑھ کر سات لاکھ ہو چکی ہے۔
 
2018ء میں اسرائیل نے اپنے بنیادی قانون میں ترامیم کر کے انہیں پہلے سے بھی بدتر بنا دیا ہے۔ ان ترامیم کی رو سے اسرائیل یہودیوں کی قومی ریاست ہے۔ عربی کو ہٹا کے عبرانی کو واحد سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ صرف یہودیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں صیہونی آبادکاریوں کو قومی مفاد قرار دیا گیا ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے بیت المقدس کی اسرائیل اور فلسطین کے مشترکہ علاقے کی حیثیت کو رد کرتے ہوئے پورے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنا دیا گیا ہے۔ نسلی تعصب کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر ایک فلسطینی بچہ کسی صیہونی آبادکار یا اسرائیلی پولیس پر پتھر برساتا ہے تو اس کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جاتا ہے جبکہ یہی کام کوئی یہودی بچہ کسی فلسطینی کے خلاف کرے تو اس کا مقدمہ سول کورٹ میں سنا جاتا ہے۔
 
اسرائیل ایک تھیوکریٹک ریاست ہے جو خود کو آسمانی طور پر پسندیدہ اور چنے ہوئے لوگوں کی سرزمین اور یہودیوں کا وطن سمجھتی ہے۔ اس کی بنیاد چوری، لوٹ مار اور مقامی آبادی کی بے دخلی پر کھڑی ہے۔ یہ ریاست پچھلے 75 سالوں سے نسلی تعصب و تقسیم، فلسطینیوں کی نسل کشی اور صیہونی نسل پرستی کی پالیسی لاگو کیے ہوئے ہے۔ اس کی توسیع پسندی اور نوآبادیاتی تسلط صرف اس خطے کے نقشے کے ارتقا سے ہی ثابت ہو جاتے ہیں۔ اپنی فطرت سے مجبور اسرائیلی ریاست کو اگر شکست نہیں دی جاتی تو یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو مکمل کر کے اور فلسطین کو نقشے سے مٹا کر ہی دم لے گی۔ پچھلے 75 سالوں سے چلا آ رہا دو ریاستی فارمولا ایک فریب کے سوا کچھ نہیں جو مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
 
اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم اسرائیل کے اس خطے میں امریکی سامراجی مفادات کے محافظ کے طور پر کردار کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب ایک پڑوسی طاقتور اور جابر ہو اور دوسرا کمزور اور مظلوم ہو تو ان دونوں کا پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہنا ناممکن ہوتا ہے۔ اسرائیل ایک بہت طاقتور فوجی طاقت ہے جس کے مقابلے میں فلسطین ایک کمزور، غریب اور دو حصوں میں منقسم علاقہ ہے جو ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید سکڑ رہا ہے اور چاروں طرف سے محصور ہے۔
 
پی ایل او کی غداری اور اس کے نتائج
 
پی ایل او 1964ء میں وجود میں آئی تھی۔ اس نے متعدد بائیں بازو کی قوتوں اور قوم پرستانہ جماعتوں کو یکجا کیا جن میں سب سے اہم الفتح تھی۔ پی ایل او کے پاس اپنا ایک عسکری ونگ بھی موجود تھا۔ اس کا پروگرام اسرائیلی ریاست کا خاتمہ، فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور دریائے اردن سے لے کر بحیرہ روم تک ایک سیکولر اور جمہوری فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ یوں پی ایل او فلسطینی تحریک کی قیادت کے طور پر سامنے آئی جس نے ایک دہائی تک اس ترقی پسندانہ نعرے کو برقرار رکھا اور اسے ہماری حمایت بھی حاصل رہی۔
 
لیکن جب 1973ء کے بعد سے مصر، جو پی ایل او کی بڑی مادی اور سیاسی حمایت تھی، نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل شروع کیا تو اس وقت کے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے بھی دو ریاستی فارمولے کو اپنا لیا اور یوں پی ایل او اپنے بنیادی منشور سے پیچھے ہٹ گئی۔ چنانچہ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ 1974ء میں عرب لیگ نے پی ایل او کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا اور اقوام متحدہ نے بھی اسے مبصر کا درجہ دے دیا۔
 
پی ایل او کی صیہونی ریاست کی طرف پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس کے افسرشاہانہ کنٹرول اور فلسطینیوں کی جدوجہد پر پابندیوں میں بھی شدید اضافہ ہو گیا جس نے ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو مزید تیز کر دیا۔ اس دوران 1987ء میں پہلے انتفادہ کا آغاز ہوا۔ صیہونیوں کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام سے تنگ آ کر فلسطینی نوجوانوں نے پہلے غزہ اور پھر مغربی کنارے میں نکل کر صیہونی فسطائی جتھوں پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کا جواب گولیوں سے دیا گیا۔ نوجوانوں کی یہ خودرو بغاوت تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور الفتح کو پھلانگتے ہوئے پوری دنیا کی تحریکوں کو متاثر کیا۔ مختلف اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہوئے یہ بغاوت پانچ سال تک چلتی رہی۔ جدوجہد کے اس عمل میں ایک طرف لڑائی کے طریقوں میں شدت آنے اور دوسری طرف پی ایل او کی زوال پذیری نے حماس کو مضبوط کیا۔ حماس ایک جہادی تنظیم کے طور پر اسرائیل کا خاتمہ چاہتی ہے جو کبھی پی ایل او کا نعرہ ہوا کرتا تھا۔
 
انتفادہ نے اسرائیل اور پی ایل او کو کوئی ”پرامن“ حل ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا اور ایک بار پھر یہ سارا عمل امریکی سامراج کی سرپرستی میں شروع ہوا۔ بالکل ویسے ہی جیسے 15 سال پہلے مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ کے معاہدوں میں ہوا تھا۔ یوں ستمبر 1993ء میں بل کلنٹن، یاسر عرفات اور اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم یتزاک رابن کے درمیان ’اوسلو اکارڈز‘ طے پائے۔ ان معاہدوں کے تحت عملاً پی ایل او نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور جواب میں اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے میں عبوری فلسطینی حکومت کی طرف کچھ پیش قدمی کو قبول کیا۔ تمام سامراجی قوتیں مطمئن ہو گئیں اور یاسر عرفات اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز کو امن کا نوبل انعام بھی مل گیا۔ پی ایل او کی یہ تاریخی غداری اور اسرائیل کی اوسلو معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزیاں بھی فلسطینی جدوجہد کو مات نہ دے سکیں لیکن اس سارے عمل سے حماس کو مزید تقویت ملی۔
 
1980ء میں پہلی دفعہ حماس نامی یہ جہادی گروپ منظر عام پر آیا تھا۔ اس کی ابتدا مصر کی اخوان المسلمون کے فلسطینی ونگ کے طور پر ہوئی تھی۔ جو بات صیہونیت، اس کے شریک جرم اور میڈیا کے دلال چھپانے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک خود اسرائیلی ریاست پی ایل او کے مقابلے میں حماس کی مالی پشت پناہی کر تی رہی۔ یہ سب حماس کو دہشت گرد کہتے ہوئے اس اسرائیل کی دہشت گردی کی پردہ پوشی کرتے ہیں جس نے اپنے آج کے دشمن کو کل پالا تھا۔ بالکل جیسے امریکہ نے کبھی افغانستان میں روس کے خلاف طالبان کو پیسے اور ہتھیار فراہم کیے تھے۔ 1981ء میں نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں سابق اسرائیلی جنرل یتزاک سیگیف، جو غزہ کا گورنربھی رہ چکا ہے، نے قبول کیا کہ ’’اسرائیلی حکومت نے مجھے بجٹ دیا اور میں نے پیسے مسجدوں میں تقسیم کیے“ جہاں حماس اپنے جنگجووں کی تربیت کر رہی تھی۔ غزہ میں مذہبی امور کے اسرائیلی سربراہ انور کوہن نے بھی وال سٹریٹ جرنل کو دئیے گئے انٹرویو میں خود تسلیم کیا، ”مجھے اس بات پرپشیمانی ہے کہ حماس اسرائیل کی پیدا کردہ تنظیم ہے۔ یہ ایک بہت بڑی اور احمقانہ غلطی تھی۔“
 
2006ء میں پی ایل او اور اوسلو معاہدوں کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حماس نے قانون ساز اسمبلی میں 44 فیصد ووٹ حاصل کر لیے اور محمود عباس کے ساتھ اپنی مخلوط حکومت ختم کر کے غزہ میں آزادانہ حکومت قائم کرلی۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے فوراً غزہ کا محاصرہ کر دیا۔ 2000ء میں مسجد اقصیٰ میں صیہونی اشتعال انگیزیوں کے نتیجے میں دوسرے انتفادہ کا جنم ہوا اور 2017ء میں تیسرا انتفادہ تب دیکھنے میں آیا جب ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا۔ اس پورے عرصے میں جہاں ایک طرف اسرائیل کی فلسطین بالخصوص غزہ کے خلاف مسلسل جارحیت، فوجی آپریشن اور قتل عام جاری رہا وہاں قابض اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی بغاوتیں بھی مسلسل جاری رہیں۔
 
حل کیا ہے؟
 
پی ایل او اب دو ریاستی فارمولے سے بھی پیچھے ہٹ کر ’اسرئیل کے اندر فلسطینیوں کے حقوق‘ کی پوزیشن تک جا پہنچی ہے۔ دوسری طرف حماس کی اسرائیل سے لڑائی جاری ہے لیکن یہ ایک بنیاد پرست تنظیم ہے جس کا مقصد ایک تھیوکریٹک فلسطین کا قیام ہے۔ جو ہمارے نزدیک انتہائی رجعتی خیال ہے۔ لہٰذا ہمارے اور اس کے درمیان ناقابل مصالحت فرق اور اختلافات حائل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس میں کچھ دھڑے ایسے بھی ہیں جو 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدی حدود کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں جس سے اسرائیلی ریاست کے متوازی فلسطین کے قیام کا ناقابل حل تضاد پیدا ہوتا ہے۔ حماس غزہ میں اجرتوں میں اضافے اور کرپشن اور اقربا پروری کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کے مظاہروں اور ہڑتالوں کو جبر کے ذریعے کچلتی بھی ہے۔ ایسے میں جب سیاسی میدان میں یہ رجعتی طاقتیں ہمارے مد مقابل ہوں‘ انقلابی متبادل کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہے۔
 
آزاد فلسطین کے لیے اس جہد مسلسل کو خطے کے عرب عوام کی جدوجہدوں اور سامراجیت اور سرمایہ داری کے خلاف سوشلسٹ فرائض سے جوڑنا ہو گا۔ ایک غاصب سے قومی آزادی اور ایک استحصالی سے طبقاتی آزادی کے درمیان کوئی مرحلے نہیں ہیں۔ مثلاً ایک انقلابی حکومت کو ناگزیر طور پر صیہونی ریاست کو اس کے تمام تر جابرانہ ڈھانچوں سمیت تحلیل کرنا ہو گا۔ تمام مقبوضہ زمینوں کو بازیاب کر کے تحویل میں لینا ہو گا تاکہ لوٹنے والے فلسطینی مہاجرین کو آباد کیا جا سکے۔ تمام جاگیروں کو قومی ملکیت میں لے کر کسانوں میں تقسیم کرنا ہو گا۔ تمام سامراجی اور صیہونی کمپنیوں اور بینکوں کو ضبط کر کے ان پر سماجی کنٹرول قائم کرنا ہو گا۔ پوری معیشت کو محنت کش عوام کی فلاح کے لیے ان کے جمہوری کنٹرول میں منصوبہ بندی سے چلانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قطر اور ایران جیسی جابر ریاستوں کے اندر محنت کشوں کو کوئی سیاسی آزادی میسر نہیں ہے اور یہ ریاستیں فلسطین کے مسئلے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ جبکہ اپنے لوگوں پر مسلسل جبر کی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔
 
1948ء سے پہلے کی سرحدوں کے درمیان ایک نسل پرستی سے پاک اور جمہوری فلسطین سرمایہ داری کی حدود میں رہ کر حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ فریضہ خطے کا سوشلسٹ انقلاب ہی سر انجام دے سکتا ہے۔ اس کے بغیر فلسطینیوں کو رنگ،نسل، زبان اور مذہب کی تفریق سے ماورا برابر حقوق کبھی نہیں مل سکتے اور نہ ہی یہاں کے لوگ پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس جدوجہد میں ان تما م اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کو بھی شامل کرنا ہو گا جو صیہونی نہیں ہیں اور جو کل نیتن یاہو کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے خلاف اور آج غزہ پر بمباری کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
 
اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مہاجرین جو پڑوسی عرب ممالک لبنان، مصر اور شام کے مہاجر کیمپوں میں قیام پذیر ہیں کی واپسی کا سوال ان ممالک کی تحریکوں کو فلسطین کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کا متقاضی ہے۔ اس عمل سے ان ممالک کے مقامی حکمرانوں کے خلاف بھی جدوجہد میں مدد ملے گی جو عموماً امریکہ، اسرائیل یا کسی دوسری سامراجی طاقت کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں۔ پورے مشرقِ وسطیٰ میں سوشلسٹ انقلاب اور خطے کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے حصے کے طور پر ہی فلسطین نجات اور انقلابی تبدیلی کی منزل کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ عرب بہار کی پہلی اور دوسری لہر نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ آج ضرورت ایک انقلابی قیادت کی ہے تاکہ عوامی بغاوتیں پسپا اور زائل نہ ہوں۔ بلکہ ایک سوشلسٹ فلسطین اور سوشلسٹ مشرق وسطیٰ کو جنم دینے والی حقیقی اور حتمی عرب بہار کی طرف بڑھ پائیں۔
Roznama Jeddojehad
+ posts