لاہور(جدوجہد رپورٹ)آئی ایم ایف کے 3ارب ڈالر بیل آؤٹ پیکیج کے اسٹینڈ بائی انتظامات کے تازہ ترین جائزے کے دوران سرکاری اداروں کی نجکاری سرفہرست ایجنڈے کے طور پر رہی ہے۔
سی اے ڈی ٹی ایم کی رپورٹ کے مطابق 700ملین ڈالر کی دوسری قسط کے پہلے جائزے کے اختتام پر پاکستان نے 4مزید سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ان 4ریاستی فرموں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور پاکستان پوسٹ شامل ہیں۔
آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ معاہدے کے مطابق203سرکاری کمپنیوں کو وزارتوں سے ہٹا کر وزارت خزانہ کے ماتحت رکھا جائے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے اس پیکج کی پہلی قسط کی وصولی کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سمیت پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی دیگر شرائط پر بھی عمل درآمد کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ بجلی، گیس،تیل اور اشیائے خورونوش عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نئے تشکیل شدہ اعلیٰ سرمایہ کاری کے ادارے اسپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل نے وعدہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے شدید دباؤ کے تحت سرکاری اداروں کی نجکاری کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔ یہ ادارہ ایک ہائبرڈ یعنی سول ملٹری حکومتی ادارہ ہے، جو جون2023میں تشکیل دیا گیا تھا، تاکہ کلیدی اقتصادی شعبوں، خاص طور پر خلیجی ملکوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت اپنے کئی سرکاری اثاثوں کے آپریشن کو باہر کی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے پر بھی بات کر رہی ہے۔ مارچ 2023میں حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلائے جانے والے تین بڑے ہوائی اڈوں پر آپریشنز اور زمینی اثاثوں کی آؤٹ سورسنگ کا آغاز کیا، جو بیمار معیشت کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر پیدا کرنے کیلئے کیا گیا ایک اقدام ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف رواں مالی سال کے دوران پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز، پاکستان اسٹیل ملز، مائع قدرتی گیس، پاور پلانٹس اور سرکاری بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جلد نجکاری کا خواہاں ہے۔
ایس او ای پالیسی کے رہنما خطوط کے تحت حکومت مستقبل میں کوئی نیا ایس او ای یعنی سرکاری ادارہ یا کمپنی قائم نہیں کرے گی۔ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب اسٹریٹجک وجوہات کی بناء پر یا کسی ملک کے ساتھ معاہدے کے تحت ضرورت ہو۔ اس کے علاوہ اس پالیسی کے تحت بتدریج موجودہ 200اداروں میں سے بیشتر کو آف لوڈ کردیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت موجودہ ایس او ایز(سرکاری انٹرپرائزز)کو بتدریج پرائیویٹائز کرنے یا ان کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے طور پر تقسیم کرنے کا طریقہ وضع کرنا ہوگا۔ ایس او ایز کے لئے ذمہ دار ہر حکومتی ڈویژن کو ایک اصلاحاتی منصوبہ تیار کرنا ہوگا، جس میں فہرست سازی، تنظیم نو، انضمام، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور اثاثوں کی فروخت جیسی تجاویز شامل ہیں۔
اسی پالیسی کے تحت وزارت خزانہ کا سنٹرل مانیٹرنگ یونٹ دسمبر2023تک تمام ریاستی فرموں کے مالیاتی نتائج جمع کرے گا اور اپ ڈیٹ کرے گا تاکہ آئی ایم ایف کو اطمینان حاصل ہو۔
پاکستان میں نجکاری کوئی نیا رجحان نہیں ہے، مارکیٹ اکانومی کے تحت ملک 1991سے مارکیٹ لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کی پالیسی پر جارحانہ طو رپر عمل پیرا ہے۔ 1990کی دہائی کے دوران معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے تحت سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کو اپنانے پر مجبور کیا گیا۔
1991سے2006کے درمیانی عرصے میں عوامی اثاثوں کو بری طرح سے لوٹا گیا اور حکومت نے 160سرکاری اداروں کو انتہائی ارزاں نرخوں فروخت کیا۔ ان اداروں میں سے 130پرائیویٹائزڈ ادارے ختم ہی ہو گئے۔ اس بے رحم نجکاری اور نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کے نتیجے میں 6لاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوئے۔
آئی ایم ایف 1991سے پاکستان پر سرکاری اداروں کی نجکاری کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ 1991سے 2015کے درمیان172ایس او ایز کی نجکاری کے ذریعے 6.5ارب ڈالر حاصل کرنے کے باوجود ملک اپنے بجٹ خسارے اور طویل المدتی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
نجکاری کا یہ سلسلہ 2006میں سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کے تحت پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کو کالعدم قرار دینے کے بعد رک گیا۔ تاہم آئی ایم ایف کے حالیہ دباؤ کے تحت اب پاکستان میں عوامی اثاثوں کی لوٹ مار کی ایک نئی لہر شروع ہونے والی ہے۔
یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی اس واحد اسٹیل ملز کو اپنے ساتھیوں کو صرف33ارب روپے کی غیر معمولی قیمت پر فروخت کر دیا تھا، جبکہ اسٹیل ملز کے صرف اثاثوں کی مالیت133ارب روپے سے زائد ہے۔
موجودہ تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی پروگرام آئی ایم ایف کا 23واں پروگرام ہے، جس کیلئے پاکستان حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔ اس رقم کا اجرا حکومت کی جانب سے بجلی، گیس اور ایندھن سے متعلق تمام سبسڈیز کو ختم کرنے، شرح سود میں اضافے، مارکیٹ کو شرح مبادلہ کا تعین کرنے کی اجازت دینے اور ایس او ایز کی تنظیم نو کے اقدامات جیسے شرائط پر عملدرآمد کی صورت میں ہی کیا جانا ہے۔
ایس او ایز گورننس اینڈ آپریشن ایکٹ2023ء فروری 2023میں منظور کیا گیا۔ جس کے تحت سرکاری اداروں کی مکمل نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت نجکاری کا عمل مکمل کیا جانا ہے۔