خبریں/تبصرے

ڈاکٹر قیصر عباس کی یاد میں آن لائن ریفرنس 10 دسمبر کو ہو گا

لاہور (جدوجہد ڈیسک) روزنامہ جدوجہد کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر قیصر عباس مرحوم 31 اکتوبر کو وفات پا گئے تھے۔ ان کی علمی، ادبی، صحافتی اور اکیڈیمک خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ’روزنامہ جدوجہد‘ کے زیر اہتمام 10 دسمبر کو ایک آن لائن ریفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے (زوم لنک آئندہ دنوں میں ان صفحات پرشیئر کر دیا جائے گا)۔

اس ریفرنس میں ڈاکٹر قیصر عباس کے رفقا اظہار خیال کریں گے۔ ان رفقا میں فوزیہ رفیق، رتوجا دیش مکھ، فاروق طارق، عدنان فاروق اور ڈاکٹر فیض اللہ جان شامل ہیں۔ فوزیہ رفیق اِن دنوں سرے، برٹش کولمبیا (کینیڈا) میں مقیم ہیں۔ فوزیہ رفیق نے ڈاکٹر قیصر کے ہمراہ ستر کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا جس کے بعد ڈاکٹر قیصر امریکہ جبکہ فوزیہ رفیق کینیڈا منتقل ہو گئیں۔ رتوجا دیش مکھ مشی گن یونیورسٹی سے میڈیا میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر قیصر عباس نے رتوجا دیش مکھ کی مدون کردہ کتاب ’Historicizing Myths in Contemporary India: Cinematic Representaions and Nationalist Agendas in Hindi Cinema‘ کے لئے فاروق سلہریا کے ہمراہ ایک باب تحریر کیا تھا۔ رتوجا دیش مکھ نے یہ کتاب پروفیسر سووپنا گوپی ناتھ کے ہمراہ مدون کی ہے۔

فاروق طارق، صدر حقوق خلق پارٹی، ڈاکٹر قیصر کے ہمراہ ’روز نامہ جدوجہد‘ کے بانیوں میں شامل رہے ہیں اور دنوں ’روز نامہ جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن رہے ہیں۔ ڈاکٹر فیض اللہ جان، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں صدر شعبہ ہیں۔ ڈاکٹر فیض اللہ جان نے ڈاکٹر قیصر کی مدون کردہ کتاب ’فرام ٹیرر ازم ٹو ٹیلی ویژن‘ میں پاکستانی صحافت بارے ایک باب تحریر کیا تھا۔

اس ریفرنس میں ڈاکٹر قیصر کے اہل خانہ بھی شرکت کریں گے۔

ڈاکٹر قیصر نے ستر کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کیا۔ وہ کچھ عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں 1981ء میں امریکہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے پہلے آئیوا یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر وسکانسن میڈسن یونیورسٹی سے صحافت میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی مقالہ پاکستان ریڈیو پر تحریر کیا۔ زندگی کے آخری سالوں میں وہ سدرن میتھڈسٹ یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ تھے۔

انہوں نے امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھایا بھی اور انتظامی امور بھی سر انجام دئیے۔ تحقیقی مقالے اور بُک چیپٹرز شائع کرنے کے علاوہ انہوں نے ’فرام ٹیرر ازم تو ٹیلی ویژن: دی ڈائنا مکس آف سٹیٹ، میڈیا اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان‘ کے عنوان سے، فاروق سلہریا کے ہمراہ، ایک کتاب بھی مدون کی۔ اس کتاب کو اکیڈمک کتب شائع کرنے والے معروف عالمی اشاعتی ادارے رُوٹلیج نے 2020ء میں شائع کیا۔

ڈاکٹر قیصر ایک صاحب طرز شاعر اور نقاد بھی تھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’سورج کو اچھالے رکھوں‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ انہوں نے امریکہ میں ہونے والے بے شمار مشاعروں میں شرکت کی۔ ان کا کلام ادبی محفلوں میں بھی شائع ہوا۔ وہ دی نیوز آن سنڈے کے لئے بھی کالم لکھتے رہے۔ ماضی میں وہ وئیو پوائنٹ آن لائن کے لئے بھی باقاعدگی سے لکھتے رہے۔

’روزنامہ جدوجہد‘ کے لئے لکھی گئی ان کی تحریروں پر مشتمل کتاب ’امید سحر کی بات‘ کے عنوان سے زیر اشاعت ہے۔ یہ کتاب انہوں نے خود ترتیب دی مگر زندگی نے انہیں مہلت نہ دی کہ اس کی اشاعت کا اہتمام کرتے۔ یہ کتاب ’روز نامہ جدوجہد‘ کی مدد سے جمہوری پبلی کیشنز کے زیر اہتمام، اگلے سال شائع کی جائے گی۔

علمی، ادبی اور صحافتی شعبوں کے علاوہ وہ عملی طور پر انسانی حقوق کے لئے بھی متحرک رہے۔ وہ امریکہ میں متحرک ساوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے ساتھ منسلک تھے اور اس کے عہدیدار بھی منتخب ہوئے۔

وہ عمر بھر ترقی پسند نظریات کی ترویج کے لئے ہر ممکنہ پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔ ڈاکٹر قیصر کی زندگی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی جدوجہد کے لئے وقف تھی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts