(مندرجہ ذیل تجزیہ عرب دنیا میں مارکسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رہنماوں نے پیش کیا ہے۔ یہ تحریر چند روز قبل لکھی گئی۔ اس لئے غزہ میں تیزی سے بدلتے حالات کے پیش نظر بعض تفصیلات اب پرانی ہو چکی ہیں: مدیر)
غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونیوں کی وحشیانہ جنگ چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔اس جنگ میں آج تک 9ہزار500سے زائد ہلاک اور دسیوں ہزار زخمی اور لاپتہ ہوگئے ہیں۔ ہسپتالوں، سکولوں اور عبادت گاہوں سمیت دیگر عمارتوں کی تباہی اس کے علاوہ ہے۔ فضاسے لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غزہ شہر، محلوں اور علاقوں کی ہزاروں عمارتیں اور ٹاورزغائب ہو چکے ہیں۔ یہ مناظر دوسری عالمی جنگ کے دوران بڑے یورپی اور ایشیائی شہروں میں ہونے والی خوفناک آفات کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ 2007سے غزہ کی آبادی پر صہیونی ادارے کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کو مزید مضبوط بنانے کا عمل ہے۔ غزہ کے باشندوں کو خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات تک پہنچنے سے روکا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں وہ بھوک، پیاس اور زخمیوں کا علاج نہ کر پانے کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اکثر کی موت ناگزیر ہو گئی ہے۔ بم دھماکوں کا نشانہ بننے سے بچنے والے ہسپتال بھی ایندھن، ادویات اور طبی سامان کی کمی کی وجہ سے بند ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
یہ جنگ غزہ کی پٹی پر حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے7اکتوبر کو کئے جانے والے حملے سے شروع ہوئی۔ اس حملے کے دوران تقریباً250لوگوں کو یرغمال بنائے جانے کے علاوہ 1400سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ یرغمالیوں، ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں میں افسروں اور فوجیوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شامل تھی۔ حماس نے غزہ کی پٹی کے مختلف مقامات سے منتشر حملہ اس امید میں کیا کہ دشمن کی فوج کو اپنے منتخب کردہ اہداف پر حملہ کرنے سے روکا جا سکے۔ وزیراعظم نیتن یاہو کی قیادت میں صیہونی حکام نے دعویٰ کیا کہ حماس کے جنگجوؤں کے اس حملے میں خاص طور پر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے ساتھ بچوں اور خواتین کو قتل کیا گیا۔ حماس نے اس کی تردید کی، لیکن مغربی حکومتوں نے بغیر کوئی تصدیق اور تحقیق کئے غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی ریاست کے جرائم کی حمایت اور جواز فراہم کرنے کیلئے اس بیان کو پھیلایا۔ صیہونی استعماری ریاست نے بالکل اسی طرح ماضی میں بھی ان کے آباؤ اجداد کو وحشیانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کیلئے اس انتہائی بدصورت اور حقیر بہانے کو استعمال کیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
یہ حکومتیں صیہونی غاصب کے قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینے پر متفق ہیں، جن میں حماس کی قیادت میں ’الاقصیٰ فلڈ‘ آپریشن میں حصہ لینے والی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ ایک غلط وضاحت ہے، جس کے ذریعے صیہونی حکومتوں اور سامراجی ملکوں میں ان کے اتحادیوں نے اپنے ظہور کے بعد سے تمام فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو نمایاں کیا ہے۔ ان کے نظریات کچھ بھی ہوں اور ان کے بارے میں ہمارا موقف کچھ بھی ہو، فلسطینی عوام میں سے جس نے بھی صیہونی دشمن کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں کی ہیں، اس کی وضاحت اسی طرح سے کی گئی ہے۔ تاہم بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا چارٹر مزاحمت کو مکمل جواز فراہم کرتا ہے۔
اگر بدقسمتی سے میناچم بیگن اور ایریل شیرون کی قیادت میں صیہونی دائیں بازوکی پارٹی لیکود کی طرف سے 1982کے موسم گرما میں لبنان پر کیا جانے والے حملہ عوامی حمایت کے حصول کے مقصد سے نہیں تھا، اور لاکھوں اسرائیلیوں نے اس کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے کئے تھے، تو غزہ کے خلاف انتہاء پسند صیہونی رہنما بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں موجودہ جنگ سے ایک بے مثال اتفاق رائے کی صورت فائدہ ضرور اٹھایا گیا ہے۔ اس حملے کے بعد بدعنوانی اور دیگر جرائم کیلئے قانونی چارہ جوئی کے خطرات کا شکار نیتن یاہو کو صیہونی دائیں بازو سے لیکر بائیں بازو تک اور نسل پرست، نیم نازی انتہائی دایاں بازوکی حمایت کی صورت فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ یہ جنگ حماس کے قیدیوں کے اہل خانہ اور ان کے ساتھ قریبی یکجہتی کرنے والوں کے علاوہ باقی سب کا اسی بات پر اتفاق ہے۔
تاہم اس شرمناک اتفاق رائے کے خلاف جرات مندانہ آوازیں اٹھیں اور کسی نہ کسی طریقے سے غزہ اور اس کے مزاحمت اور آزادی کے حق کا دفاع کیا۔ جیسا کہ اسرائیلی صحافی اور مصنف گیڈون لیوی نے لکھا کہ:
”ہم معصوم لوگوں کو گولی مارتے ہیں، ان کی آنکھیں نکالتے ہیں،ان کے چہرے مسخ کر تے ہیں، انہیں جلاوطن کرتے ہیں، ان کی زمینیں ضبط کرتے ہیں، انہیں لوٹتے ہیں، انہیں ان کے بستروں سے اغواء کرتے ہیں اور اُن کی نسل کشی کرتے ہیں۔ ہم نے بھی غیر معقول محاصرہ جاری رکھا۔ ہم غزہ کی پٹی کے گرد ایک بہت بڑی رکاوٹ بناتے ہیں۔ اس کے زیر زمین ڈھانچے کی لاگت766ملین ڈالر ہے اور ہم محفوظ رہیں گے۔ چند سو لوگوں نے ثابت کر دیا کہ 20لاکھ لوگوں کو ظالمانہ قیمت ادا کئے بغیر ہمیشہ کیلئے قید کرنا ناممکن ہے۔ وہ آزادی کی ایک جھلک کیلئے کچھ بھی ادا کرنے کو تیار ہیں۔“
انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ”جو کچھ ہوا اس کی بہت بڑی ذمہ داری وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر عائد ہوتی ہے اور انہیں اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی، لیکن یہ ان کے ساتھ نہ شروع ہوا ہے اور نہ ان کے جانے کے بعد ختم ہو گا۔ ہمیں اب اسرائیلی مظلوموں کیلئے بلک بلک کر رونا ہے، لیکن غزہ کیلئے بھی رونا چاہیے۔ غزہ، جس کے زیادہ تر باشندے اسرائیل کے بنائے ہوئے پناہ گزین ہیں۔ غزہ، جس نے کبھی آزادی کا ایک دن بھی نہیں دیکھا۔“
امریکہ کی حمایت
غزہ میں اس وقت انسانی تاریخ کا بدترین قتل عام جاری ہے۔ غزہ کو نہ صرف صیہونی ریاست بلکہ پورے سامراجی مغرب نے بھی نشانہ بنایا ہے۔ سامراجی مغرب کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، جو اپنی جنگی مشین کا کچھ حصہ ہمارے خطے میں لایا ہے، اس نے طیارہ بردار بحری جہاز، جنگی جہاز اور تباہی و بربادی کے جدید ترین بم بھی لائے ہیں۔
ایسے ملک میں، جس کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ حالت جنگ میں داخل ہو چکے ہیں،امریکی صدر ان کے ساتھ مکمل یکجہتی اور لڑائی میں ان کی حمایت کرنے وہاں آئے ہیں، یہ حمایت اس جھوٹے الزام کی بھی ہے، جس میں کہا گیا کہ وہ راکٹ صیہونی فضائیہ نے نہیں بلکہ اسلامی جہاد تحریک نے ہسپتال پر چلایا ہے، جس کے نتیجے میں سینکڑں بچے اور عورتیں ماری گئیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
انہوں نے ان کے داخلی کابینہ اجلاسوں میں شرکت کی، جو اس جنگ کی منصوبہ بندی اور نگرانی کرنے کے ذمہ دار تھے۔جیسا کہ انہوں نے کانگریس سے کہا کہ وہ اُس نسل کشی کے فوجی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے 14ارب ڈالر فراہم کرے، جس میں امریکیوں کو ملوث ہونے میں کوئی عار نہیں ہے۔
اسی عمل اور مقصد کے فریم ورک میں امریکی حکومت جنگ بندی کی قرارداد کو روکنے کیلئے سلامتی کونسل میں اپنا ویٹو کا حق استعمال کرتی ہے، تو وہ اسرائیل کی مذمت کیسی کر سکتی ہے؟ یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ غزہ کے خلاف موجودہ وحشیانہ جنگ کا مقصد غزہ کی آبادی اور اس کے مزاحمت کاروں کو سب سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کے علاوہ نقل مکانی اور منتقلی کے اس عمل کو دہرانا ہے، جو 1848کی جنگ کے دوران ہوا تھا۔فی الوقت یہ غزہ میں موجود فلسطینیوں کے خلاف ہو رہا ہے اوراس کے بعد مغربی کنارے پر بسنے والے فلسطینیوں کی باری آئے گی۔ اس کے بعد گرین لائن سے آگے عربوں کی باری آئے گی، یعنی ان فلسطینیوں کی جو اب تک مقبوضہ علاقوں میں موجود ہیں۔
(گرین لائن، 1967سے پہلے کی سرحد یا 1949کی جنگ بندی سرحد وہ حد بندی لائن ہے جو 1948کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ملکوں ]مصر، اردن، لبنان اور شام[ کی فوجوں کے درمیان 1949کے جنگ بندی کے معاہدوں میں طے کی گئی تھی۔ یہ 1949سے لیکر 1967میں ہونے والی 6روزہ جنگ تک ریاست اسرائیل کی ڈی فیکٹو سرحد رہی، اور دو فلسطینی علاقوں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے ساتھ اسرائیل کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدو ں کی نمائندگی بھی کرتی ہے)۔
یہ سب کچھ یہودی ریاست کے تاریخی خواب کو وجود میں لانے کیلئے کیا جا رہا ہے، جس کا اظہار سب سے پہلے تھیوڈور ہرزل کی مشہور کتاب’یہودیوں کی ریاست‘ میں کیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی مغرب میں وسیع پیمانے پر ایک احساس کے ساتھ عوام متحرک ہو رہے ہیں، جس کا ان کی حکومتوں میں فقدان ہے۔ امریکی، برطانوی، جرمن، فرانسیسی و دیگر شہروں کے چوکوں کو بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شریک افراد نے بھر دیا ہے۔ فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور غزہ میں صیہونی فوج کے مظالم کی مذمت کی جا رہی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے بیشتر دارالحکومتوں اور بڑے شہروں میں ابھی تک کوئی عرب بہار جیسی تحریک نہیں ہے، جو2011کے بعد لمبے عرصہ تک جاری رہنے والی عوامی تحریکوں اور انقلابی عمل کو دوبارہ زندہ کر سکے۔ اُس وقت لاکھوں لوگ بے مثال بہادری کے ساتھ ’عوام حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں‘ کے نعرے لگا رہے تھے، اور اس بار فلسطینی عوام اور غزہ کا دفاع کرنے والے جنگجوؤں کی حمایت میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
عرب ممالک کی ذمہ داری
عرب حکومتوں نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک معمولی سفارش پر زور دیا،جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، تاکہ غزہ میں شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ انہیں جنرل اسمبلی سے مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ ’امن کیلئے اتحاد‘ کے طریقہ کار کے تحت،صیہونی جارحیت کی مذمت کرنے کیلئے، فوری جنگ بندی اور اسرائیل کی طرف سے غزہ کے محاصرے کو مکمل اور قطعی طور پر ختم کرنے کیلئے ایک پابند سفارش جاری کرے۔ نیز اسرائیل کی طرف سے غزہ کی آبادی کو جو انسانی اور مادی نقصان پہنچاہے، اس کیلئے معاوضے کی ادائیگی کرے، قرار داد کا احترام نہ کرنے کی صورت میں سخت پابندیوں کا اطلاق ہو۔ ایسا کئی بار ہوا ہے، جب سلامتی کونسل ’بگ فائیو‘ کے پاس ویٹو پاور کی وجہ سے کوئی قرارداد منظور کرنے سے قاصر رہی ہے۔ 1950میں کوریا کی جنگ کے دوران یا1956میں مصر کے خلاف سہ فریقی جارحیت کے دوران اور اس کے علاوہ بے شمار ایسے مواقع آئے جب کوئی متفقہ قرارداد منظور نہیں کی جا سکی۔
اگرچہ سعودی عرب نے خود کو صہیونی ادارے کے ساتھ نارملائزیشن کیلئے غدارانہ مذاکرات کو روکنے کیلئے مجبور پایا اور محسوس کیا کہ یہ کافی ہو گیا ہے، تاہم دوسرے عرب ملکوں نے یہ بھی نہیں کیا۔ تمام عرب حکومتوں نے جارحیت کی حمایت کرنے والی کسی بھی مغربی حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے، خاص طور پر امریکی حکومت کے خلاف، جو اس سب میں صف اول میں شامل ہے۔ درحقیقت ان میں سے بہت سی حکومتیں کسی نہ کسی طریقے سے جارحیت میں شریک ہیں، جن میں عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں مصری حکومت بھی شامل ہے۔
ہمارے مطالبات
اس حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے اور جاری قتل عام اور اس کے انتہائی خطرناک حتمی مقاصد کا مقابلہ کرنے کے لیے زیر دستخطی انقلابی تنظیمیں ایک طرف عرب حکومتوں سے اور دوسری طرف خطے کے ممالک کے عوام الناس سے اور دنیا کے دیگر ملکوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ:
پہلا:
ا) صیہونی ریاست کی طرف سے کیے جانے والے جنگی جرائم کے خلاف عالمی متحرک مہم کے فریم ورک کے اندر ”امن کے لیے متحد ہونے“کے طریقہ کار کے مطابق، مذکورہ بالا قرارداد کی درخواست کریں۔ فلسطینی عوام سو سال سے زائد عرصے سے نسلی تطہیر اور قتل و غارت کا شکار ہیں،جبکہ عظیم استعماری طاقتوں (سب سے پہلے برطانیہ اور امریکہ) کی سازشوں کا مقصد انہیں ان کے بنیادی قومی حقوق سے محروم کرنا ہے۔ ان سازشوں نے اس عوام کی سرزمین پر ایک مصنوعی ریاست کے قیام میں سہولت فراہم کی ہے، جو اپنی تاریخی سرزمین سے بے گھرہو رہے،مارے اور اکھاڑے جا رہے ہیں، اور اس ریاست کو ظلم کی بدترین شکلوں پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔
ب) غاصب ریاست اور امریکہ کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کئے جائیں اور صہیونی ریاست کی حمایت کرنے والے دوسری مغربی ممالک کو بھی حمایت جاری رکھنے کی صورت تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دی جائے۔
ج) مذکورہ ملک کے ساتھ تعاون اور حمایت کرنے والے ملکوں کا تیل اور گیس بند کی جائے، جیسے ایک عالمی اقدام میں اکتوبر1973کی جنگ میں ہوا تھا۔ اس بار بنیادی فرق یہ ہونا چاہیے کہ یہ اقدام اور اصل جارح اور اس کی حمایت کرنے والے ملکوں کے خلاف دیگر اقدامات زیادہ سے زیادہ عوامی تحریک کے ساتھ کئے جانے چاہئیں، جیسا کہ کسی بھی عرب حکومت کے خلاف،جو مذکورہ اقدامات پر عمل نہیں کرتی ہیں۔
دوسرا:
ا)ایرانی ریاست، جو فلسطینی عوام کی مکمل حمایت کا دعویٰ کرتی ہے، سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ان اقدامات پر عملدرآمد کرے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیاہے اور اگلے نوٹس تک آبنائے ہرمز کو مغربی کمپنیوں کیلئے یہ ضروری مواد لے جانے والے ٹینکروں کیلئے بند کر دیا جائے۔ ایسا قدم اٹھانا کم از کم ضروری ہے کہ اسے ہمارے لوگوں کے درد پر تجارت کے الزام سے بری کیا جائے۔ یہ ایک جائز اور درست الزام ہے، جو فلسطینی کاز کے منافقانہ استحصال کی ایک طویل تاریخ پر مبنی ہے۔
ب) ہم انصاف اور امن سے محبت کرنے والے تمام لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکومتوں کو پابند کریں کہ وہ فلسطینی عوام کو ان کے تاریخی دشمنوں کا سامنا کرنے کے لیے سب سے زیادہ مدد فراہم کریں، جو ضروری طور پر پوری انسانیت کے معروضی دشمن ہیں۔ اس میں صہیونی ریاست کے ساتھ اور اگر ضروری ہو تو امریکہ اور دیگر مغربی استعماری ممالک کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات منقطع کرنا شامل ہے۔
٭غزہ پر جنگ کو فوری طور پر روکا جائے۔
٭خوراک، ادویات اور ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں اور بیماروں کی نقل و حمل کے لیے سرحدیں کھولی جائیں۔
٭غزہ کا مسلسل محاصرہ فوری طور پر اٹھایا جائے۔
٭جارحیت میں شریک اور خطے کو خوفزدہ کرنے اور فلسطینی عوام کے محافظوں میں پیشگی شکست کی فضا پیدا کرنے کیلئے مداخلت پر تیار سامراجی قوتوں کا فوری انخلاء کیا جائے۔
آخر میں اس اعلامیہ پر دستخط کرنے والی تنظیموں کا خیال ہے کہ تباہ کن جنگوں کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے تمام فلسطینیوں کی ان کی اصل زمینوں پر واپسی کا معاہدہ ہونا چاہیے۔ 1948کی جنگ سے لے کر اب تک درجنوں بین الاقوامی قراردادوں میں فراہم کردہ اس تاریخی مطالبے کو عملی جامہ پہنائیں۔ ہم موجودہ نسل پرست ریاست، جسے اسرائیل کہا جاتا ہے، کو تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے تاریخی فلسطین کے پورے علاقے میں تمام باشندوں، عربوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک جمہوری اور سیکولر ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں جو مساوات کی بنیاد پر قائم ہو۔
اس وقت ہمارے خطے میں اور بالخصوص فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس تنازعے کو حل کرنے کے طریقہ کار پر منحصر ہے کہ دنیا کس طرف جاتی ہے۔ یہ ایک تاریخی موڑ بن سکتا ہے، یا تو ایک ایسے عمل کے طور پر جو کرہ ارض کے تمام باشندوں کیلئے انصاف اور آزادی کی ضمانت دیتا ہو، یا اس کے برعکس خوفناک جنگوں کے پھیلنے کیلئے سازگار حالات پیدا کرنے کی سمت میں، جو اس خطے میں انسانی زندگی کے مستقبل کو مکمل طور پر تباہ کر سکتے ہیں۔
02نومبر2023
دستخط کرنے والی تنظیمیں
1)۔ المناضل۔اے کرنٹ، مراکش
2)۔ دی آرگنائزیشن آف ریوولوشنری سوشلسٹس، مصر
3)۔ الجزائر میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری محمود رشیدی۔ ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اس وجہ سے وہ بطور تنظیم دستخط نہیں کر سکتے۔
4)۔ ریولوشنری کمیونسٹ گروپ، لبنان