عامر رضا
فلم اینیمل اپنی ریلز سے لیکر اب تک ہزار کروڑ روپے کے بزنس کی طرف گامزن ہے۔فلم کو ساوتھ انڈین ڈائریکٹر سندیپ ریڈی نے لکھا اور دائریکٹ کیا ہے۔مرکزی کردار رنبیر کپور،انیل کپور اور بوبی دیول نے ادا کئے ہیں۔اب تک اس فلم پر جو ریویو لکھے گئے ہیں،ان میں سب سے اہم نکتہ جس کی طرف نشاندہی کی گئی ہے،وہ فلم میں دکھایا جانے والا تشدد ہے جسے ٹرنٹینو کی فلم ”کل بل“ کے مقابلے میں پرکھا جا رہا ہے۔ ”کل بل“ کی طرح ”اینیمل“ میں مزاح کا انداز ڈارک ہے جو یا تو ”ایلفا میل“ کی جنسیات یا پھر تشدد کے بطن سے پھوٹتا ہے۔فلم کا مرکزی تھیم ایک بیٹے کی جدوجہد ہے،جو وہ اپنے باپ کو بچانے اور خاندانی دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے کرتا ہے،لیکن اس کے ساتھ اور بھی بہت سی پرتیں جڑی ہیں۔والد کی بری پرورش،پیسہ کمانے اور بزنس ایمپائر کھڑی کرنے کی دھن اور فیملی کو وقت نہ دینے کا انجام بیٹے کے اندر ایک ایسے اینیمل (جانور) کے جنم کی شکل میں نکلتاہے،جس کی تسکین صرف سیکس اور تشدد سے ہوتی ہے۔
فلم میں جو خاندانی دشمنی دکھائی گئی ہے،اس کی تہہ میں پنجاب کی تقسیم (اس تقسیم سے مراد ہندوستان کی تقسیم ہے کیونکہ حقیقت میں ہندوستان تقسیم نہیں ہوا بلکہ پنجاب اور بنگال ہی تقسیم ہوئے تھے۔ پنجاب کی تقسیم صدی کا سب سے خونریز واقعہ تھا، جس میں ایک ہی قوم نے اپنے ہی ہاتھوں بظاہر مذہبی بنیاد پر نسلی اور جینیاتی طور پر اپنے ہی کزنز کے گلے کاٹے اور اپنی ہی کزنز کو ریپ کیا تھا) کا ڈسکورس دکھائی دیتا ہے۔
فلم میں ایک پنجابی خاندان دکھایا گیا ہے،جس میں ایک بھائی سکھ،ایک ہندو اور ایک مسلمان ہو جاتا ہے۔ سکھ بھائی گاؤں میں رہ جاتا ہے جبکہ دو بھائی دلی آ کر بزنس ایمپائرکھڑی کرتے ہیں۔ان میں سے ایک بھائی غبن کرنے کی کوشش میں نکال دیا جاتا ہے،جو بیرون ملک منتقل ہو جاتا ہے اور اسلام قبول کر لیتا ہے۔کچھ عرصہ بعد وہ واپس آ کر بزنس ایمپائر میں سے (جس کا نام سواستیکاہے) اپنا حصہ مانگتا ہے تو اسے دھتکار دیا جاتا ہے [ بلیبر سنگھ (انیل کپور کے الفاظ میں اگر وہ کوئی مدد مانگتے تو میں دے سکتا تھا لیکن حصہ نہیں)دلبرداشتہ ہو کر وہ اپنے آ پ کو آگ لگا کر خود کشی کر لیتا ہے۔اس کے پوتے اسرار اور ابرار بھی اسی پاگل پن کا شکار ہیں،جو ان کے کزن وجے میں پایا جاتا ہے،یعنی ایسی حیوانی جبلت جس کی تسکین سیکس اور تشدد میں ہے۔ داداکی موت کا بدلہ لینے کے لیے بلبیر سنگھ پر حملہ آوار ہوتے ہیں جس کا جواب دینے کے لیے وجے (رنبیر کپور) گاؤں سے اپنے سکھ بھائیوں (کزنز) کا جتھہ لیکر حملہ آوار ہوتا ہے۔
پرتشدد اور فائیٹ کی سیکونسز میں بیک گراونڈ میوزک کے طور پر پنجابی واروں کا استعمال کیا گیا ہے،جو کہ تشدد کے دروان ہیرو کا خون گرماتی ہیں۔فلم کے آخر میں وجے (پنجابی) اپنے ہی کزن ابرار (پنجابی) کا گلا خنجر سے کاٹ دیتا ہے۔فلم کے اختتام میں اسرار اور ابرار کا تیسرا بھائی بدلے کی پہلی انسٹالمنٹ کے طور پر دو سکھوں کو ذبح کر دیتا ہے۔ فلم کا یہ سین مجھے پنجاب کی تقسیم کے دروان ہونے والے فساد میں واپس لے جاتا ہے،جہاں کزنز نے ایک دوسرے کے گلے کاٹ دئیے تھے۔فلم میں پنجاب یا ہندوستان کی علامت سواستیکا ہے،جس کی تقسیم کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔ بلبیر سنگھ پر قاتلانہ حملے کے بعد ”سواستیکا سٹیل“کے مزدور کام چھوڑ دیتے ہیں۔ایسے میں وجے سواستیکا کے سامنے کھڑا ہو کر پر تشدد زبان میں ایک جذبانی تقریر کرتا ہے اور اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ سواستیکا کی طرف اٹھنے والا ہر ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ یوں یہ فلم بھی بالی ووڈ میں آئی ہوئی ہندوتوا کی لہر کی نظر ہو جاتی ہے۔
فلم تقسیم کے موضوع کی ایک نئی تشریح اور تعبیر پنجابی کرداروں کے ذریعے کرتی ہے (فلم کے اداکار رنیبر اور بوبی دیول دونوں ہی نسلی اعتبار سے پنجابی ہیں)۔ اس سے پہلے وکرم چندرا اپنے ناول سیکریڈ گیمز میں (جس پر نیٹ فلیکس کا سیزن بھی اسی نام سے بنا ہے) پنجابی کرداروں کے تناظر میں ہی کہانی سناتا ہے اور پنجاب کی تقسیم کو ایک بڑی فالٹ لائن قرار دیتا ہے،جو خطے میں نیوکلیئر جنگ یا اس کو شروع کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ناول میں سرتاج سنگھ،شاہد خان دونوں پنجابی ہیں اور آپس میں کزن ہیں اور گرو جی کا جنم بھی سیالکوٹ میں ہوتا ہے۔سیکریڈ گیمز کا سرتاج سنگھ اور اینیمل کا وجے دونوں ہی اپنے مسلمان (پنجابی) کزن کی سرکوبی سے ”امن قائم“رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔