التمش تصدق
سوشل میڈیا پہ اکثر بائیں بازو کے نظریات، حکمتِ عملی اور طریقہ کار پر تنقید سلسلہ لگا رہتا ہے۔اس میں مخالفین سے زیادہ بائیں بازو کے وہ کارکنان ہیں،جو بہت جلدی میں انقلاب کرنے کے خواہش مند تھے۔ انقلاب ہونہ سکا تو اب مایوسی کے عالم میں سوشل میڈیا پر مصنوعی تنقید کے ذریعے اپنا ذہنی تناؤ کم کرنے اور ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ان میں بائیں بازو کے کچھ ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنی حکمتِ عملی اور طریقہ کار کو درست ثابت کرنے کے لیے باقی رجحانات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ سب فیس بک پوسٹوں کی حد تک ہی ہو رہا ہے، جو کوئی سنجیدہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔
انقلابی جدوجہد کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے کے حوالے سے تنقید ایک مثبت عمل ہے،بشرطیکہ وہ تنقید تعمیری ہو،نہ کے تضحیک یا ذاتی تشہیر کے لیے۔ جدلیاتی مادیت کا بھی یہی اصول ہے،تضاد اور کشمکش ہی سماج اور فطرت میں جاری عوامل کی طرح خیالات اور نظریات کو ترقی دینے کا سبب بنتے ہیں۔ایسے عہد میں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جب حکمران طبقہ ان جمہوری حقوق پرمسلسل حملے کر رہا ہو، جو محنت کشوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کئے ہیں، تو جمہوری حقوق کی تحریکوں کے حوالے سے بائیں بازو کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟
یہ سوال سابق نوآبادیاتی ممالک میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر دیتا ہے، جہاں قومی جمہوری انقلاب کے فریضے حکمران طبقہ پورے کرنے میں ناکام رہا ہے اور عوام بنیادی جمہوری حقوق سے محروم ہیں۔
یہ بالکل درست ہے کہ سوشلسٹوں کو جمہوری تحریکوں سمیت کسی بھی تحریک سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔ہمیں طلبہ اور مزدور یونین کی بحالی، صنفی برابری، قوموں کے حق خودارادیت، ریاست کو مذہب سے الگ کرنے، نجکاری کے خلاف اور اجرتوں میں اضافے کے لیے مزدوروں کی مزاحمت، زمین کی کسانوں میں تقسیم اور لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت تمام جمہوری تحریکوں کی غیر مشروط حمایت کرنی چاہیے، اوران تحریکوں کو منظم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ ”ایسا فتح یاب سوشلزم ممکن نہیں ہے،جو مکمل جمہورت رائج نہیں کرتا۔اسی طرح محنت کش طبقہ سرمایہ دار طبقے پر فتح حاصل کرنے کی تیاری نہیں کر سکتا ہے،جب تک جمہورت کی خاطر چومکھی مسلسل انقلابی جدوجہد نہ کرے۔“
سوشلسٹ پیٹی بورژا جمہوریت پسندوں کی طرح جمہوری مطالبات کو ازخود مقصد نہیں بناتے بلکہ تمام جمہوری مطالبات کو اس لیے اپنی جدوجہد کا حصہ بناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کو متحرک کیا جائے اورجمہوری مطالبات کی جدوجہد کے پھیلاؤ میں شدت پیدا کر کے آگے بڑھایا جائے،جس کی حتمی منزل سرمایہ دار طبقے کے خلاف محنت کش طبقے کی فتح ہو،یعنی سوشلسٹ انقلاب، جو سرمایہ دار طبقے کی ملکیت کو ضبط کرے گا۔جیسا کہ مارکس نے کمیونسٹ مینی فسٹو میں لکھا ہے کہ”کمیونسٹ ہر جگہ موجود سماجی اور سیاسی نظام کے خلاف ہر انقلابی تحریک کی مدد کرتے ہیں۔ان تمام تحریکوں میں ملکیت کے سوال کو سامنے لاتے ہیں،جو کہ ہر تحریک کا سب سے اہم سوال ہے۔خواہ اس وقت وہ اپنی نشونما کے کسی مرحلے میں کیوں نہ ہو۔“جہاں کمیونسٹ جمہوری سوالات سے نظریں نہیں چرا سکتے وہاں ملکیت کے سوال کو پس پشت ڈال دینا بھی لبرل جمہوریت پسندوں کی اصلاح پسندانہ سوچ اور موقع پرستی کا شکار ہونے کے مترداف ہے۔
کیا پورژوا قوم پرستی اور فیمنزم کی مخالفت قوموں کے حق خود ارادیت اور صنفی برابری جیسے جمہوری مطالبات کی مخالفت ہے؟قوم پرستی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہماری قوم کا استحصال دوسری قوم کر رہی ہے اور فیمنزم کے نقطہ نظر سے مرد عورت کا استحصال کرتا ہے۔ یہ قوم کے حکمرانوں اور محنت کشوں میں تمیز نہیں کرتا ہے۔اپنی قوم کے حکمران طبقے کی بھی حمایت کرتا ہے،جو سامراجی ریاست کا کمیشن ایجنٹ ہے اور دوسری قوم کے مزدوروں کی مخالفت کرتا ہے، جو خود اپنی قوم کے حکمران طبقے کے جبر اور استحصال کے خلاف ہے۔قوم پرستی کے نظریے کی بنیاد دوسری قوم سے تعصب اور نفرت ہے،جس میں نسل پرستی کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ ان کی نظر میں ان کی قوم باقی تمام اقوام سے برتر اور اس کی تاریخ سب سے پرانی ہے۔قومی تعصب اور قوم پرستی پر انقلابی تنقید نہ کرنا مارکسی بین الاقوامیت سے انحراف ہے۔سوشلسٹ جہاں ہر قسم کے جبر کے خلاف ہیں، چاہے وہ قومی ہو، نسلی ہو، صنفی ہو یا کسی اور شکل میں ہو،وہاں وہ ہر قسم کے تعصب کے بھی خلاف ہیں،چاہے اس کی کوئی بھی صورت کیوں نہ ہو۔سامراجی جبر کے خلاف سوشلسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ تمام نوآبادیوں کی فوری آزادی کا مطالبہ کریں،وہ بھی سرمایہ داری میں رہتے ہوئے۔ لینن نے قوموں کے حق خود ارادیت اور سوشلزم میں لکھاہے کہ”قوموں کے حق خود ارادیت کا مطلب صرف سیاسی معنی میں حق خود اختیاری ہے۔ ظلم و جبر سے آزادی، سیاسی علیحدگی کا حق، ٹھوس معنوں میں اس مطالبے کا مطلب علیحدگی کے حق میں احتجاج کرنے کی آزادی، علیحدگی چاہنے والی قوم کی ریفرنڈم کے ذریعے علیحدگی کے سوال کو طے کرنے کی آزادی۔ نتیجے کے طور پر مطالبہ اور علیحدگی، بٹوارے اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرنے کا مطالبہ ایک نہیں ہے۔ یہ محض منطقی اظہار ہے کسی بھی شکل میں قومی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کا۔“لینن ایک طرف قوموں کے حق خود ارادیت کی وکالت کرتا ہے،وہاں تہذیبی،قومی خود مختاری کے رجعت پسندانہ نظریے کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور مظلوم قوموں کے مزدوروں کو حاکم قوم کے مزدوروں کے ساتھ طبقاتی ایکتا پر زور دیتا ہے،جس میں تنظیمی ایکتا بھی شامل ہے۔
سوشلسٹ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اصلاحت کے مطالبے کو نہ تو مکمل رد کر سکے ہیں کہ سرمایہ داری میں اصلاحات کی گنجائش موجود نہیں ہے، نہ ہی خود کو اصلاح کے مطالبات تک محدود کر سکتے ہیں۔ لیون ٹراٹسکی نے عبوری پروگرام میں وہ طریقہ کار مرتب کیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کس طرح کم از کم پروگرام کو سوشلسٹ پروگرام سے جوڑا جا سکتا ہے۔ آج کے عہد اور ملکوں کے معروضی حالات کے مطابق اس پروگرام میں ضروری تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔سوشلسٹوں کا مقصد اور کردار محض تحریکوں کی حمایت تک محدود نہیں ہو سکتا،نہ ہی مختلف سیاسی اور معاشی مطالبات کے گرد ابھرنے والی تحریکوں کی پیروی کرنا ہے،بلکہ ان تحریکوں کو متحدہ محاذ کے ذریعے جوڑتے ہوئے ان کی طاقت میں اضافہ کرنا اور انہیں انقلابی پروگرام سے جوڑنا ہوتا ہے۔محض نجکاری کے خلاف مزدوروں کی مزاحمت کی حمایت کافی نہیں بلکہ اس کو تمام بڑی صنعتوں کی نیشنلائزیشن کے پروگرام سے جوڑنا ضروری ہے۔اگر نجکاری کے خلاف تحریک نہیں ہے یا الگ الگ چھوٹی تحریکیں ہیں،تو اس وقت پہلا کام تحریک کو منظم کرنا اور بکھری ہوئی تحریکوں کو متحد کرنا ہوتا ہے۔
سرمایہ دارنہ جمہوریت اپنی اعلی شکل میں بھی محدود اور اپاہج ہے،جو اقلیتی طبقے کی جمہوریت ہے،جسے مزدور جمہوریت کے ذریعے ہی شکست دے کر حقیقی جمہوریت رائج کی جا سکتی ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے تمام استحصال زدہ پسے ہوئے طبقات کے جمہوری مطالبات کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے سرمایہ دارنہ نظام کو شکست دی جائے۔جب تک محنت کش طبقہ طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر جمہوری مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان تحریکوں کی قیادت نہیں کرتا،حکمران طبقہ ان تحریکوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔پسماندہ ممالک میں محنت کش طبقہ ہی وہ صلاحیت رکھتا ہے جس کے ذریعے ذرائع پیدوار پر قبضے کے بعد جمہوری انقلاب کے وہ فرائض پورے کئے جا سکتے ہیں، جو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے آج تک پورے ہوئے،نہ ہی مستقبل میں سامراج کا گماشتہ حکمران طبقہ ان فرائض کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔