عمر عبداللہ خان
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ 20 فیصد سے بھی کم رہا۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کا کچھ اثر ضرور رہا ہو گا لیکن یہ ایک اور بہت اہم پہلو کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ وہ یہ کہ اس ملک کے شہروں میں عوام کی رائج الوقت سیاست سے بیگانگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ یوں تو عموماً لوگ حکمران جماعت سے ہی بدظن رہتے ہیں اور اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار اسے ہی ٹھہراتے ہیں، لیکن آج کل اگر آپ عام لوگوں سے پوچھیں تو وہ ساری ہی جماعتوں سے بدظن دکھائی دیتے ہیں۔
اگرچہ نوجوانوں کے اندر عمران خان کے لیے کچھ نرم گوشہ پایا جاتا ہے، لیکن وہ بھی پرانی جماعتوں اور لیڈروں کے ردعمل میں ہی انتہائی بددلی اور مایوسی میں یہ کرتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے لیے لڑنے مرنے یا سیاسی میدان میں اتر کر کچھ کرنے کے لیے وہ ہر گز تیار نہیں ہیں۔ آج کل تو نوجوان صرف اور صرف ائیرپورٹ کا راستہ تلاشنے میں سب سے زیادہ دلچسپی دکھاتے نظر آتے ہیں۔ بلا مبالغہ تقریباً ہر نوجوان کو اس ملک میں اپنا مستقبل تاریک ہی دکھائی دے رہا ہے۔ چند سال پہلے آپ کو ہر تین میں سے دو نوجوان قاسم علی شاہ بنے پھرتے نظر آتے تھے،لیکن آج کوئی جھوٹے منہ بھی یہ کہتا نظر نہیں آتا کہ اگر آپ دل لگا کے محنت کریں تو کچھ نا کچھ بن سکتے ہیں۔ وہ سماج جسکی نوجوان نسل، جو کہ آبادی کا 70 فیصد بھی ہو،مجموعی طور پرمایوسی اور بیگانگی کا شکار ہو، تو اسکی سیاسی اور سماجی گھٹن کس نہج پر ہو گی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ان بیچاروں کا کوئی قصور نہیں، ان میں سے بیشتر نے 2008ء کے بحران کے بعد جوانی میں قدم رکھا ہے اور بہت سے تو پیدا ہی بحران کے عہد میں ہوئے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سکھ کا ایک دن بھی نہیں دیکھا۔ یہ وہ نسل ہے جو اپنے ماں باپ سے کم آمدن پر زندہ ہے، وہ بھی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلی نسل میں ایک ڈاکٹر ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد اپنی تنخواہ پربا آسانی کنبہ بنانے کے قابل ہو جاتا تھا، لیکن آج اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ اب اگر ڈاکٹر کا یہ حال ہے تو کسی اورکے بارے میں کیا بات کی جا سکتی ہے۔ اب شادی کرنا ممکن نہیں اور سماجی پسماندگی کے باعث جنسی ضروریات پوری کرنا سرحد پار دشمن کے سپاہی سے بندوق چھین کے لانے کے مترادف ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے اگرچہ فاصلے توکم کر دئیے ہیں لیکن یہ سارا عمل اور بھی پیچیدہ اور فرسٹیشن کا باعث بنا دیا ہے۔ اس سارے ماحول میں آج کا نوجوان شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ ڈپریشن کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد ہر روز بڑھتی جا رہی ہے اور جو بچ گئے ہیں انکو بھی مرا ہوا ہی تصور کیا جائے۔
کسی بھی قسم کے تخلیقی اظہار پر اس خوف زدہ اور کمزور ریاست نے اتنے تالے لگا دئیے ہیں کہ سماج کا عمومی ایکسپریشن ”لاہور دا پاوا اختر لاوا“ بن کر رہ گیا ہے۔ مقبول شاعروں کی شاعری، فلم نگاروں کی فلمیں، ڈرامے اور وائرل ہونے والی وڈیوز جنسی ہوس کے استعارے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جو شخص جتنا احمق، بے ہودہ اور سطحی ہے، وہ اتنا ہی مقبول ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورے سماج کو ہی عقل سے چڑ ہو گئی ہو۔
اس قدر تنگ نظری کا شکار معاشرے میں انقلاب جیسے تصور کی وسعت کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے اور انقلابیوں کے لیے خود کو اس نظریے پر قائم رکھنا ہی سب سے بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ اس دباؤ کے نتیجے میں فرار ڈھونڈنے اور سہل پسندی جیسے رجحانات آپ پر پوری شدت سے حملہ آور ہو تے ہیں اورہر روز خود کو ہی پھر سے جیتنے کا سوال کھڑا ہو جاتا ہے۔ تاہم یہی وہ ادوار بھی ہوتے ہیں جن میں کٹھن حالات سے گزار کر تاریخ انقلابیوں کی تربیت کرتی ہے تاکہ انہیں وہ اس تاریخی ضرورت اور فریضے کو سر انجام دینے کے لیے تیار کر سکے۔ ان حالات کا اکیلے مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اجتماعی جدوجہد اور ایک دوسرے سے مقابلے کی بجائے ایک دوسرے کا سہارا بن کر آگے بڑھنا ہی ان حالات پر ہماری فتح کا ضامن ہو سکتاہے۔