حارث قدیر
پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع رقبے کے حوالے سے سب سے بڑا اور آبادی کے حوالے سے سب سے چھوٹے صوبے کے عوام ایک بار پھر ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
14دسمبر سے کوئٹہ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں پہنچ چکا ہے۔ اس لانگ مارچ کی قیادت خواتین کر رہی ہیں اور ہر عمر کی خواتین کی بڑی تعداد سمیت مرد بھی اس لانگ مارچ میں شریک ہیں۔
بلوچستان میں پسماندگی اور محرومی کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کا سلسلہ ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے۔ محرومیوں کے خلاف جہاں سیاسی جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ ہے، وہیں عسکری مزاحمت بھی مختلف شکلوں میں بلوچستان کے پہاڑوں پرجاری ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی،جبری گمشدگیوں کے خاتمے، ماورائے عدالت قتل عام کے خاتمے اورسرکاری اور نجی ڈیتھ سکواڈز کے خاتمے کیلئے مزاحمت بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ تاہم حالیہ احتجاجی تحریک 23نومبر کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کی جانب سے 4بلوچ نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے بعد شروع ہوئی ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل عام کی تاریخ بھی نئی نہیں ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پاکستان میں دو ایسے صوبے ہیں، جہاں سب سے زیادہ افراد دکو جبری طورپر لاپتہ کیا گیا ہے اور ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر پشتونوں کو ریاستی جبر، اغواء اور ماورائے عدالت قتل عام کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم بلوچستان میں یہ سلسلہ زیادہ تر قومی محرومی کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں نظر آرہا ہے۔
بلوچستان میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 6ہزار سے زائدافراد کو جبری طورپر لاپتہ کیا جا چکا ہے۔ سینکڑوں مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ہیومن رائٹس کے شعبے ’پانک‘ کے جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے نومبر تک 502افراد بلوچستان سے لاپتہ ہوئے ہیں اور75افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
سرکاری طورپر بنائے گئے انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگی کے پاس بلوچستان سے1887سے زائد جبری گمشدگی کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ کچھ آزاد اندازوں کے مطابق 8ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ ہر سال کچھ افراد کی بازیابی بھی ہو رہی ہے، رواں سال جنوری تا نومبر کے دوران 205افراد بازیاب بھی ہوئے ہیں۔
بلوچستان وسائل سے مالا مال اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ صحت، تعلیم اور روزگار جیسی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دو کروڑ کی آبادی میں سے2 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں اور 5سال سے کم عمر کے 5لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ انسانی ترقی کے تمام انڈیکس میں صوبہ بلوچستان کا درجہ پاکستان کے تمام صوبوں سے نیچے ہے۔
اس پسماندگی اور محرومی کے خلاف مزاحمت کی ہر آواز کو بری طرح سے کچلے جانے کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاہم ہر جبر کے خلاف مزاحمت ایک نئی ڈھنگ اور آہنگ سے دوبارہ سر اٹھاتی رہی ہے۔ بھائی لاپتہ ہوا تو بہن نے مزاحمت کا علم تھام لیا، باپ لاپتہ ہوا تو بیٹی نے یہ علم تھام لیا، لیکن مزاحمت کو رکنے نہیں دیا گیا۔
حالیہ تحریک بھی مزاحمت کے اسی سلسلے کی ایک نئی اور بلند ترین کڑی ہے۔ یہ احتجاجی تحریک بلوچ یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم شروع کی گئی۔ بلوچ یکجہتی کونسل بساک، بی ایس او، بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کا اتحاد ہے۔ یہ اتحاد پورے بلوچستان میں ایک پر اثر اتحادکے طور پر سامنے آرہا ہے اور حالیہ تحریک بلوچستان کے محکوم و مظلوم عوام کیلئے ایک امیدکی کرن بنتی جا رہی ہے۔
20نومبر کو سی ٹی ڈی نے مولا بخش بالاچ نامی ایک نوجوان کو گرفتار کیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کے قبضے سے 5کلو گرام بارودی مواد ملا ہے۔ اگلے روز بالاچ کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ عدالت سے حاصل کیا گیا۔ تاہم 23نومبر کو 4نوجوانوں کی نعشیں برآمد ہوئیں، جن میں سے ایک کی شناخت مولا بخش بالاچ کے طور پر ہوئی۔ سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ بالاچ کو ایک جگہ کی نشاندہی کیلئے لے جایا جا رہا تھا، جہاں عسکریت پسندوں نے حملہ کیااور بالاچ کی موت ہو گئی۔ اس عمل میں البتہ سی ٹی ڈی کے کسی شخص کو کوئی زخم بھی نہیں آیا اور 4لوگ مارے گئے۔
دوران حراست اس قتل کے خلاف بالاچ کے لواحقین نے تربت شہر میں 23نومبر سے احتجاج شروع کیا۔ یہ احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے پورے کیچ ضلع اور پھر مکران ڈویژن میں پھیل گیا۔ مکران ڈویژن میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں کی گئیں۔ ہزاروں افراد نے احتجاج میں شرکت کی۔ تاہم مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں تربت سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ شروع کیا گیا۔ اس لانگ مارچ کو جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے روکنے کی کوشش کی گئی،مقدمات قائم کئے گئے اور تمام حربے اپنائے گئے۔ تاہم عوام کی بڑی تعداد نے اس مارچ کا استقبال بھی کیا اور مارچ میں شمولیت بھی بڑھتی گئی۔ کوئٹہ میں چار روز تک قیام کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کیاگیا۔
کوئٹہ سے اسلام آباد آتے ہوئے بھی مختلف شہروں میں اس لانگ مارچ کا والہانہ استقبال کیا گیا اور جگہ جگہ انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹوں، مقدمات اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تاہم خواتین کی قیادت میں یہ لانگ مارچ استقامت کے ساتھ اسلام آباد کی جانب رواں دواں رہا۔ بدھ20دسمبر کی شام یہ لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہو چکا تھا، جہاں اسلام آباد ٹول پلازہ پر انتظامیہ نے لانگ مارچ کے شرکاء کو روک دیا۔ مارچ کے یہ شرکاء اسلام آبادپریس کلب میں پہلے سے دھرنے میں بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ تادم تحریر اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اور اسلام آباد ٹول پلازہ کے سامنے دونوں دھرنے قائم ہیں۔
اس لانگ مارچ کی قیادت ابتداء میں بلوچ سٹونٹس ایکشن کمیٹی(بساک) کی سابق رہنما صبیحہ بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنما سمیع دین بلوچ کر رہی تھیں۔ کوئٹہ سے اس مارچ کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے سپرد کی گئی ہے۔ تینوں خواتین اور کچھ مرد اس لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں۔ بالخصوص ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ مزاحمت کی نئی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔
مہرنگ بلوچ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ وہ 5ویں جماعت کی طالبہ تھیں تو انہوں نے اپنے والد کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج سے مزاحمتی زندگی کا آغاز کیا اور آج وہ سینکڑوں خواتین کے ہمراہ مظلوم و محکوم بلوچ عوام کی مزاحمت کی علامت کے طور پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایوانوں پر دستک دے رہی ہیں۔
مہرنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو ٹریڈ یونین رہنما اور بائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 2006میں جب انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تو مہرنگ بلوچ نے پہلی بار کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے والد کی بازیابی کیلئے احتجاج میں شرکت کی۔ ان کے والد کو اس بار تو رہا کر دیا گیا، لیکن 2009میں جب دوبارہ انہیں اغواء کیا گیا تو 2سال بعد یکم جولائی 2011کو ان کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔
5بہنوں کے اکلوتے بھائی کو جب دسمبر2017میں جبری طور پر اغواء کیا گیا تو مہرنگ بلوچ نے ایک بار پر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ 4ماہ تک اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے احتجاج کرتی رہیں، جس کے بعد ان کے بھائی کو رہائی نصیب ہوئی۔ تاہم اس کے بعد مہرنگ بلوچ مزاحمتی تحریک کی ایک نمایاں شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔ وہ پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں اور پر امن طریقے سے ہی جدوجہد کو آگے بڑھانے پر مسلسل زور دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی جانب سے جبر کی ہر شکل کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اب سینکڑوں خواتین و مردوں کے ہمراہ 1600کلومیٹر طویل لانگ مارچ کو اسلام آباد پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
بلوچ یکجہتی کونسل نے جہاں بلوچستان کی مزاحمتی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، وہیں اس کی قیادت کو یہ یقین بھی ہے کہ اسلام آباد میں ان کے زخموں پرمرحم نہیں لگائی جائے گی۔ انہیں یقین ہے کہ یہاں ان کی آواز حکمرانوں کے ایوانوں میں کسی نے نہیں سننی ہے۔ تاہم لانگ مارچ کے دوران ڈیرہ غازی خان، تونسہ، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت مختلف مقامات پر والہانہ استقبال اور عوام کی بے مثال یکجہتی نے وہ راستہ ضرور مہیا کر دیا ہے کہ جس کی بنیاد پر ان دکھوں کا مداوا کرنے کی تدبیر کی جا سکتی ہے۔
بلوچستان کی تمام تر محرومیوں کا مجسم اظہار قومی محرومی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ خطوں کا حکمران طبقہ جدید قومی ریاست کی تشکیل میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے، کیونکہ ان خطوں میں سرمایہ داری انقلاب کے ذریعے نہیں آئی بلکہ سامراجی طور پر پیوند کی گئی ہے۔ تاریخی تاخیر زدگی کی وجہ سے قومی جمہوری انقلاب کے فرائض پورے نہ ہو سکے اور عملی طور پر یہ خطے محکوم قومیتوں کے جیل خانوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ مشترک اور ناہموار ترقی کی وجہ سے یہ معاشرے اتنے پیچیدہ ہو گئے ہیں اور آبادیاں اس طرح سے مختلف مقامات پر مدغم ہو چکی ہیں کہ کسی محکوم قوم کی علیحدگی بھی ایک نئی خونریزی کے عمل سے گزر کر ہی وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔
تاہم جدید قومی ریاست کی تشکیل میں ناکامی کی وجہ سے جبر کے ذریعے سے قوموں کو آپس میں جوڑے رکھنے کے عمل نے مرکز کی بالادستی اور چھوٹی قوموں کی پسماندگی میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ وسائل پر اختیار اور محرومی کے خاتمے کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو بھی ریاست کے سکیورٹی نقطہ نظر سے حل کرنے کی کوشش نے مسائل کو ناقابل حل سطح تک پہنچا دیا ہے۔ یوں موجودہ ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے نہ تو قومی محرومیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کو ہم آہنگ ترقی سے سرفراز کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں موجودہ نظام اور اس کے حکمرانوں کے راستے سے بہتری،ترقی، نجات، قومی، معاشی اور سیاسی آزادی کا حصول ناممکن ہو چکا ہے۔
نجات کا ایک ہی راستہ باقی ہے، وہ مظلوموں کے اتحاد کا راستہ ہے، وہ محکوموں کے اتحاد کا راستہ ہے۔ وہ یکجہتی کا راستہ ہے اور اس نظام کو متحد ہو کر لپیٹ دینے کا راستہ ہے۔ خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب، جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے بائیں بازو کے کارکنوں، نوجوانوں اور خواتین سمیت محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں کو بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہوگا۔ اتحاد اوریکجہتی کا یہ پیغام اعتماد سازی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے راستوں کا تعین کرے گا۔ آج جموں کشمیر میں محرومی اورمحکومی کے خلاف ایک طویل ترین احتجاجی تحریک موجود ہے، گلگت بلتستان میں گزشتہ چند روز سے تحریک نے ایک بار پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے، خیبر پختونخوا میں ظلم اور جبر کے خلاف مزاحمت کی ایک لمبی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ ان تمام تحریکوں کا اتحاد اس خطے سے ہر طرح کی محرومیوں کی راہیں متعین کر سکتا ہے۔