دنیا

ایران اسرائیل تصادم: سامراجی طاقتیں دور رس تناظر سے عاری

عمران کامیانہ

اسرائیل پر ایران کا تاریخ میں یہ پہلا براہ راست حملہ ایک علامتی نوعیت کا حامل ہے جس کا مقصد ایرانی ریاست کی جانب سے حد سے تجاوز کرتے اسرائیل کو وارننگ دینا اور اپنے عوام، افواج اور پراکسی گروہوں کے سامنے اپنی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔

واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور وحشت نے مذہبی بیانیہ رکھنے والی ریاستوں اور حکمرانوں (ایران، اردگان، پاکستان وغیرہ)، جو طویل عرصے سے امت مسملہ اور اسرائیل دشمنی کا کارڈ کھیلتے رہے ہیں، کو نظریاتی طور پر کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اور ان کے عوام بجا طور سے سوال اٹھا رہے ہیں کہ غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے کے لئے یہ مذہبی ٹھیکیدار کیا کر رہے ہیں۔ ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں اردگان کی شکست میں مہنگائی اور معاشی بحران سے کہیں بڑا عنصر یہ ہے۔ اس حوالے سے ایرانی ریاست بھی شدید داخلی دباؤ کا شکار ہے۔

علاوہ ازیں ایران کے اندر اور باہر ایرانی کمانڈروں اور ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کرنے کی اسرائیلی واردات کئی سالوں سے جاری ہے اور اس سلسلے میں دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیل کا حملہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ہے۔ لیکن تصادم کو محدود رکھنے اور کھلی جنگ میں نہ بدلنے دینے کے حوالے سے ایرانی حملے میں کم از کم اب تک دو طرفہ انڈرسٹینڈنگ کا عنصر بھی شامل نظر آتا ہے (جس میں خاص طور سے امریکی ثالثی کا اہم کردار ہے)۔

اس محدود حملے کا فائدہ داخلی طور پر نیتن یاہو کو بھی ہو گا اور اسے اسرائیلی عوام کے سامنے خود کو مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے کا مزید موقع ملے گا۔ بہرحال اس کیفیت کو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں علاقائی و عالمی سامراجی طاقتوں کے درمیان شدید ہوتے تضادات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو ان کی تمام تر ”انڈرسٹینڈنگ” اور پس پردہ سفارت کاری کے باوجود بے قابو انداز سے پھٹ سکتے ہیں اور بڑی خونریزیوں کے ساتھ ساتھ پہلے سے نحیف عالمی معیشت کے بے نظیر بحران کا موجب بن سکتے ہیں۔

اس حقیقت سے خود سامراجی پالیسی ساز بھی واقف اور خوفزدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی حملے کو روکنے کے لئے امریکیوں کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں اور انہوں نے چین سے لے کے خلیجی ریاستوں تک کو بیچ میں ڈال کر معاملہ سلجھانے کی کوشش کی۔ ایرانی حملے کے بعد کی صورتحال کو واضح ہونے میں کچھ وقت لگے گا جس میں اہم عنصر یہ ہے کہ اسرائیل کوئی جوابی کاروائی کرتا ہے یا نہیں، اور کرتا ہے تو اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ اس صورت میں پھر ایران کو بھی پہلے سے زیادہ جارحانہ جواب دینا پڑے گا اور معاملہ مزید بگڑنے کی طرف جائے گا۔

بہرحال زیادہ امکان یہی لگ رہا ہے کہ کشیدہ حالات کو ادارہ جاتی مذمتوں اور پرفریب بیان بازیوں میں زائل کرنے اور ایران اسرائیل تصادم کو کم از کم وقتی طور پر دبا دینے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ معاملات جتنے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر متعلقہ سامراجی طاقتیں خود بھی کوئی دوررس تناظر بنانے سے عاری نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے محنت کش عوام کے لئے اس متروک سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال اور بربادی ہی مضمر ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔

Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔