راولاکوٹ(حارث قدیر)پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک کے سلسلے میں میرپور ڈویژن سے چلنے والا لانگ مارچ مذاکرات کی ناکامی کے بعد راولاکوٹ سے روانہ ہو کر دھیرکوٹ پہنچ گیا ہے۔ ریاست بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن آج چوتھے روز میں داخل ہو چکا ہے۔
شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام کی وجہ سے لانگ مارچ کے علاوہ آمدورفت کا سلسلہ مکمل طور پر معطل ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہونا شروع ہو چکی ہے، تاہم مظاہرین تحریک کی کامیابی سے پہلے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
اتوار کے روز راولاکوٹ میں چیف سیکرٹری اور انٹیلی جنس اداروں کے ذمہ داران نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کئے۔ تاہم مطالبات مکمل تسلیم نہ ہونے کی صورت ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کئی گھنٹے چلنے والے مذاکرات رات 9بجے کے قریب ختم ہوئے اور ایکشن کمیٹی نے عوامی رائے کے مطابق راولاکوٹ سے دھیرکوٹ کی جانب سفر شروع کر دیا۔
رات گئے لانگ مارچ کے قافلے دھیرکوٹ بازار میں پہنچ گئے تھے۔ تاہم گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ قافلے ارجہ بازار سے دھیرکوٹ تک کئی کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے رات گاڑیوں میں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔
صبح قافلوں کے مظفرآباد روانہ ہونے سے قبل مذاکرات کی ایک اور کوشش حکومت کی جانب سے کئے جانے کا امکان ہے۔مطالبات تسلیم نہ کئے جانے کی صورت مظفرآباد کی جانب سفر شروع ہوگا۔
یاد رہے کہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے گزشتہ ایک سال سے جاری تحریک کے دوران مطالبات کی عدم منظوری کی صورت11مئی کو بھمبر سے مظفرآباد تک لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ حکومت نے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا، جس کے بعد 9مئی کو ہی ڈڈیال میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پولیس گردی کے خلاف ایکشن کمیٹی نے 10مئی سے ہی پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا آغاز کر دیا تھا۔ 10مئی کو مظفرآباد میں بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کا سلسلہ شروع ہوا اور دو روز تک مظفرآباد شہر میدان جنگ بنا رہا۔
دوسری جانب حکومت نے 11مئی کو لانگ مارچ روکنے کی منصوبہ بندی شروع کر رکھی تھی۔ 11مئی کو لانگ مارچ شروع ہونے سے قبل ہی 70سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
لانگ مارچ کے قافلوں کو روکنے کیلئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، درخت کاٹ کر سڑکوں پر پھینکے گئے اور اس کے علاوہ پہاڑیاں کاٹ کر بھی سڑکوں پر پھینکی گئی تھیں۔ تاہم مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے آگے بڑھتے رہے۔ متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں۔ 60سے زائد پولیس اہلکاران اور سینکڑوں مظاہرین زخمی ہوئے۔ ایک پولیس سب انسپکٹر کی ہلاکت بھی ہوئی۔
مظاہرین 11مئی کو ہی پونچھ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ 12مئی کو پونچھ ڈویژن کے قافلوں سمیت ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل قافلے راولاکوٹ شہر میں داخل ہوئے۔ یہ قافلے اب دھیرکوٹ میں پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ مظاہرین منگلا ڈیم کی پیداواری لاگت پر ٹیکس فری بجلی کی فراہمی، آٹے کے نرخ گلگت بلتستان کے برابر کرنے اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔