لاہور (جدوجہد رپورٹ) انڈو نیشیا کی پارلیمنٹ نے منگل کے روز ملک کے تعزیری ضابطہ کے لمبے عرصہ سے متوقع نظر ثانی بل کو منظور کر لیا ہے۔ ترمیم شدہ ضابطہ کے مطابق شہریوں کو مارکسسٹ لینن اسٹ نظریے کی پیروی کرنے والی تنظیموں سے وابستہ ہونے پر 10 سال قید اور کمیونزم پھیلانے کے جرم میں 4 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق ترمیم شدہ ضابطے کے مطابق دیگر قابل تعزیت جرائم میں شہریوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کیلئے بھی شادی کے بغیر جنسی تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے، مانع حمل مصنوعات اور ادویات کے فروغ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ترقی پسند سوچ سے روکنے پر زور دیا گیا ہے، جبکہ صدر اور ریاستی اداروں پر تنقید کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
ترمیم شدہ ضابطہ توہین رسالت کے موجودہ قانون کو بھی وسعت دیتا ہے اور انڈیو نیشیا کے 6 تسلیم شدہ مذاہب (اسلام، پروٹسٹنٹ ازم، کیتھولک ازم، ہندو مت، بدھ مت اور کنفیوشس ازم) کے مرکزی اصولوں سے انحراف کیلئے 5 سال قید کی سزا کو برقرار رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ 1965-66ء میں فوجی آمر سہارتو کی سربراہی میں انڈونیشیا کی حکومت نے کمیونسٹوں، ترقی پسندوں اور ٹریڈ یونینسٹوں کے ساتھ ساتھ نسلی جاوانی، نسلی چینی اور ملحدوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا تھا۔ اس دوران 10 لاکھ لوگ مارے گئے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈونیشیا، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی تھی، کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔
اس وقت امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان افراد کی فہرستیں اکٹھی کرنے میں کردار ادا کیا تھا، جنہیں انڈونیشیا کی فوج نے نشانہ بنایا تھا۔
نیا فوجداری ضابطہ اسقاط حمل کی سابقہ مجرمانہ حیثیت کو برقرار رکھتا ہے، لیکن جان لیوا طبی حالات اور عصمت دری کیلئے مستثنیات شامل ہیں، بشرطیکہ جنین کی عمر 12 ہفتوں سے کم ہو۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے کچھ ترمیموں کو حد سے زیادہ وسیع یا مبہم قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور متنبہ کیا کہ انہیں ضابطے میں شامل کرنے سے عام سرگرمیوں پر جرمانہ عائد ہوتا ہے اور آزاد اظہار اور راز داری کے حقوق کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
تاہم ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کو کچھ راحت ملی ہے، سخت غور و خوض کے بعد قانون سازوں نے بالآخر اسلامی گروہوں کی طرف سے تجویز کردہ ایک آرٹیکل کو ہٹانے پر اتفاق کیا ہے، جس میں ہم جنس پرستوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
نظر ثانی شدہ ضابطہ فوجداری انصاف کا نظام سزائے موت کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔ تاہم نئے ضابطے کے تحت سزائے موت کیلئے 10 سال کی عبوری مدت رکھی گئی ہے، اگر اس دوران مجرم اچھا برتاؤ کرتا ہے تو سزائے موت عمر قید یا 20 سال قید میں بدل دی جائیگی۔
انڈو نیشیا کے ضوابط کے تحت پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جاتا ہے، تاہم اگر صدر دستخط نہ بھی کرے تو یہ خودبخود 30 روز بعد نافذ العمل ہو جاتا ہے، تاوقتیکہ صدر اسے منسوخ کرنے کیلئے کوئی ضابطہ جاری نہ کرے۔
ضابطہ کے مطابق صدر یا نائب صدر، ریاستی اداروں اور قومی نظریے کی توہین پر پابندی عائد ہو جائیگی۔ صدر کی توہین پر 3 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے منگل کو کہا کہ عوامی رہنماؤں کی تنقید پر سزا دینے والے قوانین بین الاقوامی قانون کے منافی ہیں۔ حقیقت کے اظہار کی کچھ شکلیں توہین آمیز سمجھی جاتی ہیں۔
گروپ کے سینئر محقق آندریاس ہارسونو کا کہنا ہے کہ ’جابرانہ قوانین کا خطرہ یہ نہیں ہے کہ ان کا وسیع پیمانے پر اطلاق کیا جائے گا، خطریہ یہ ہے کہ وہ انتخابی نفاذ کیلئے راستہ فراہم کرتے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’بالی اور جکارتہ جیسے سیاحتی علاقوں سمیت بہت سے علاقوں میں سیاحوں کی آمد ختم ہونے کا خطرہ ہو گا۔ یہ قوانین پولیس کو رشوت لینے کی اجازت دیتے ہیں، خاص طور پر توہین مذہب کے قانون کے تحت اہلکاروں کو سیاسی دشمنوں کو جیل بھیجنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘