لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے ایوان بالا نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا پیش کردہ آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔
ترمیم کے مطابق فوج کو بدنام کرنے یا نفرت انگیزی پھیلانے کی صورت دو سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی جا سکے گی۔ آرمی سے ریٹائرڈ ہونے کے دو سال تک کوئی فوجی سیاست نہیں کر سکے گا، حساس ڈیوٹی پر تعینات افسر ریٹائرمنٹ کے 5 سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا۔
آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کرنے سے دو روز قبل اراکین کو فراہم کئے جانے کے پروٹوکول پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ تاہم کچھ سینیٹرز کی جانب سے اس معاملے پر معمولی اعتراضات کے بعد بل منظور کر لیا گیا۔
دریں اثنا تمام ٹی وی چینلوں کو بھی مبینہ طور پر ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل سے متعلق کوئی ٹاک شو یا خبر نہیں نشر کی جائے گی۔ ایک معروف ٹی وی ٹاک شو کے پروڈیوسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ جمعرات کی شب آرمی ایکٹ میں ترمیم پر پروگرام کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ انہیں چینل انتظامیہ کی طرف سے بتایا گیا کہ ترمیمی بل سے متعلق پروگرام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس پروگرام کو ایجنڈے سے نکال دیا جائے۔
بعد ازاں کچھ صحافیوں نے بھی سوشل میڈیا پر اس پابندی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن سے تعبیر کیا گیا۔
’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کے مطابق ترمیمی بل کے تحت صدر مملکت پاک فوج اور اس کے ذخائر کی نشو و نما کریں گے جبکہ فوج پر ’کمانڈ اینڈ کنٹرول‘ وفاقی حکومت کا اختیار ہو گا اور آرمی چیف انتظامی معاملات دیکھیں گے۔
صدر مملکت پاک فوج میں کمیشن دیں گے، مگر کسی بھی غیر ملکی شہریت رکھنے والے، دہری شہریت رکھنے والے یا 18 سال سے کم عمر شہری کو پاک فوج میں کمیشن نہیں ملے گا۔
ایکٹ کی شق 18 میں ترمیم کے مطابق اب وفاقی حکومت ضرورت کے مطابق، یا غیر معمولی صورت حال میں، یا جنگ کی صورت حال میں آرمی چیف کی مشاورت سے کسی بھی فوجی افسر کو 60 سال کی عمر تک ملازمت پر برقرار رکھ سکتی ہے۔
آرمی ایکٹ کی شق 176 میں ترمیم کے ذریعے اب کسی بھی آرمی افسر بشمول آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے الفاظ کے ساتھ اب ’ری ٹینشن‘ یعنی عہدے پر برقرار رکھنے کا لفظ بھی شامل کر دیا گیا ہے، جبکہ آرمی چیف اب اس نئے ایکٹ کے مطابق قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کی ہدایات جاری کر سکے گا۔
ترامیم شدہ بل کی شق 176 سی کے مطابق اب آرمی چیف اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں اپنے ماتحت کسی بھی افسر کو تفویض کر سکے گا۔
آرمی ایکٹ سیکشن 26 اے میں ایک نئے سیکشن کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات جو پاکستان اور افواج کی سکیورٹی اور مفاد سے متعلق ہو افشا کرے گا اسے پانچ سال قید بامشقت تک کی سزا ہو سکے گی۔
تاہم آرمی چیف یا بااختیار افسر کی جانب سے منظوری کے بعد غیر مجاز معلومات دینے پر سزا نہیں ہو گی۔ راز افشا کرنے والے شخص کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔
شق 26 بی کے تحت ملازمت سے ریٹائرمنٹ، برطرفی یا استعفے پر کوئی بھی فوجی افسر دو سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکے گا جبکہ حساس اداروں میں کام کرنے والے افسران پانچ سال تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے، خلاف ورزی پر دو سال تک قید بامشقت کی سزا ہو گی۔