فاروق سلہریا
تحریک انصاف اور اس کاحامی میڈیا یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عمران خان کی اقتدار میں واپسی لازمی ہے کیونکہ عمران خان بہت مقبول ہیں۔ کم از کم دو صوبوں (پنجاب اور خیبر پختون خواہ) میں بلاشبہ عمران خان مقبول ہیں۔
میڈیا کے علاوہ عدالتیں،مڈل کلاس، ریٹائرڈ جرنیل اور کرنیل، مغرب میں موجودتارکین وطن،اشرافیہ (ایلیٹ) کے بہت سے حلقے،نوکر شاہی۔۔۔گویا کتنے ہی ایسے طاقتور حلقے ہیں جہاں عمران خان کی حمایت موجود ہے۔
اس کے علاوہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ جب بے نظیر بھٹو یا نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا تو دوسری بار یا تیسری بار بھی انہیں موقع دیا گیا۔ سو بظاہر یوں لگتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملائے فوج آگے نہیں بڑھ سکے گی۔کیا ایسا ہی ہے؟
ہائبرڈ رجیم اور فوجی آمریت کا فرق
عمران خان کے مستقبل کے حوالے سے ایک بات تو با آ سانی کہی جا سکتی ہے: اگلے لگ بھگ تین سال تک وہ اقتدار میں واپس نہیں آ پائیں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ فوجی چیف،جنرل عاصم منیر عمران خان کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے۔۔۔اور یہ بات تقریباََطے ہے کہ وہ گذشتہ فوجی چیف کی طرح مدت ملازمت میں توسیع حاصل کریں گے۔سو دو تین سال بارے وثوق سے کچھ کہا جا سکتا ہے۔
گو ڈھانچے (سٹرکچر) افراد سے بڑے ہوتے ہیں مگر غیر جمہوری اداروں اور ڈھانچوں میں ایسے افراد بھی،کم از کم وقتی طور پر،اہم بن جاتے ہیں جن کے ہاتھ میں طاقت کا ارتکاز ہوتا ہے۔
جنرل عاصم منیر اوران کے گرد موجود گروہ کے ساتھ عمران خان ذاتی دشمنی بنا چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان فوج کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے،وہ لڑائی کو عاصم منیر بمقابلہ عمران خان رکھنا چاہتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور شریف خاندان بھی یہی کرتا رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ تینوں بڑی جماعتوں کا فوج سے کوئی نظریاتی اختلاف نہیں۔ سو اگر بات سیاسی و نظریاتی نہیں ہے تو پھر شخصیات کی کافی اہمیت ہے۔
جنرل عاصم منیر اور عمران خان کے مابین اُسی قسم کی پرخاش بن گئی ہے جیسی بھٹو اور ضیا یا نواز شریف اور جنرل مشرف میں بن گئی تھی۔ اس لئے شخصیات کا سوال اس وقت اہم ہے۔
دوسرا اہم نقطہ ہے: ہائبرڈ رجیم۔
ہائبرڈ رجیم فوجی آمریتوں سے مختلف ہے۔ مزید یہ بھی ذہن میں رہے کہ پہلی دو فوجی آمریتیں (ایوب آمریت،ضیا آمریت۔۔۔یحییٰ آمریت ایوب آمریت کی ہی ایک شکل تھی) مشرف آمریت سے مختلف تھی۔
ایوب اور ضیا دور کی آمریتیں مختلف عالمی و ملکی حالات میں مسلط ہوئیں۔ ایوب نے سرد جنگ کے دور میں،عوامی نیشنل پارٹی کا انتخابات میں کامیابی کا راستہ روکنے کے لئے مارشل لگایا۔ جنوبی کوریا کی طرح سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کی کوشش کی گئی مگر پاکستان جنوبی کوریا نہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور باقی ملک میں ایک ایسی حکومت بن گئی جو سوشلزم کا نام لے رہی تھی۔
بھٹو کی ’سوشلسٹ‘ حکومت کے خلاف ضیا آمریت ایک طرح کا ردِ انقلاب تھا جس کا مقصد بھٹو عہد کے مزدور دوست اصلاحات کا خاتمہ تھا۔ان دونوں ادوار میں فوجی آمریتوں کو درپیش چیلنج مختلف طرح کے تھے سو دونوں نے بورژوازی کی ایک نئی پرت (layer) تشکیل دینے کی کوشش کی۔ایوب دور میں نام نہاد بائیس خاندان بنے تو ضیا دور میں لاہور کے شریف اورگجرات کے چوہدری سامنے آئے۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ فوج نے معیشیت کا رُخ کیا۔ ضیا دور میں یہ کام تیزی سے آگے بڑھا کیونکہ ضیا فوج میں اپنی مقبولیت قائم کرنا چاہتا تھا سو رشوت کی شکل میں ریٹارڈ فوجی افسروں کے لئے کئی طرح کے پیکج سامنے آئے۔
جب مشرف آمریت قائم ہوئی تو فوج معشیت پر حاوی ہو چکی تھی۔ مزید یہ کہ معیشیت میں صنعت کاری کی بجائے رئیل اسٹیٹ کا غلبہ ہو چکا تھا لہذا مشرف دور میں بورژوازی کی کوئی نئی پرت تشکیل دینے کی بجائے پرانے خاندانوں سے کام چلایا گیا۔ رئیل اسٹیٹ بورژوازی (جس کے نمائندے جہانگیر ترین،ملک ریاض اور علیم خان جیسے لوگ ہیں) انہیں بھی ساتھ شامل کر لیا گیا۔ کوئی بڑا تجربہ نہیں کیا گیا کیونکہ نہ تو سرد جنگ باقی تھی نہ ملک میں ترقی پسند قوتیں (سیکولر قوم پرست، سوشلسٹ جماعتیں)اب حزب اختلاف کر کردار ادا کر رہی تھیں۔
پاکستان مین گو فوجی آمریتیں،انڈونیشیا،مصر اور بعض لاطینی امریکہ کے ممالک کی طرح۔۔۔لمبا عرصہ نہیں چل سکیں۔۔۔پاکستان میں عام طور پرفوجی آمریت کی عمر اوسطاََ دس سال ہی رہی۔۔۔لیکن ایوب،ضیا اور مشرف آمریت کا مندرجہ بالافرق سمجھنا ضروری ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ پہلی دو آمریتوں کے پیش نظر ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنا تھا۔ مشرف دور میں فوجی معیشیت اہم ہو چکی تھی۔جرنیل سیاست پر کنٹرول چاہتے تھے نہ کہ حکومت پر۔اس لئے جب وکیلوں کی تحریک چلی تو جنرل مشرف کی قربانی دے دی گئی۔ بغیر حکومت کے سیاست پر کنٹرول نے بعد ازاں ہائبرڈ رجیم کی شکل اختیار کی(گو اس پر کام نوے کی دہائی سے جاری تھا)۔
ہائبرڈ رجیم کا مستقبل کیا ہو گا،یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ ملک میں مزدور تحریک کیا انگڑائی لیتی ہے، اس ضمن میں سب سے اہم سوال ہے۔
تا ہم ابھی تک ایک بات واضح ہے کہ فوجی آمریتوں (ایوب، ضیا) کی طرح ہائبرڈ رجیم دیرپا بنیادوں پر منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔پنجابی محاورے کے مطابق ’ڈنگ ٹپاو‘ پالیسی ہے۔ گو ادارے کی سطح پر کچھ بنیادی اتفاق رائے موجود ہے۔مثال کے طور پر فوج اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کرنے پر متفق ہے۔ اختلاف گرو ہ بندی کی وجہ سے ہے۔ اس اندرونی اختلاف (جنرل فیض حمید بمقابلہ عاصم منیر:کون جنرل بنے گا)کا اظہار بیرونی گروہ بندی (تحریک انصاف یا نواز لیگ: کون حکومت کرے گا) کی شکل میں نظر آیاہے۔
دوم، پہلے ہائبرڈ رجیم (جنرل باجوہ)کی گروہی ترجیحات،دوسرے ہائبرڈ رجیم میں بدل گئی ہیں۔ ممکن ہے جنرل عاصم منیر کی ممکنہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ترجیحات پھر بدل جائیں۔ عمران خان کا کم از کم یہی خیال ہے اس لئے تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ موجودہ ہائبرڈ سیٹ اپ (عاصم منیر،شہباز شریف)کو ناکام بنا دیا جائے۔ اس کے لئے وہ ہر ممکن حد تک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ طاقتور حلقوں کی حمایت کی وجہ سے تحریک انصاف کو لگتا ہے کہ وہ ایسا کر پائیں گے۔ کیا ایسا ہو گا؟
اگلی بار عمران سرکار؟
اس سال جنوری میں راقم نے ایک امکان کی بات کی تھی: مارشل لا لگ سکتا ہے۔
اب مین اسٹریم میڈیا اور یوٹیوبر بھی اس کی بات کر رہے ہیں۔ مندجہ بالا لنک کو کلک کر کے میری گذارشات پڑھ لیجئے۔وقت بچانے کے لئے انہیں دہرایا نہیں جا رہا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ مارشل لا ایک امکان کے طور پر موجود ہے۔
راقم نے مارچ میں یہ بھی لکھا تھا کہ نواز شریف کا وزیر اعظم نہ بننا عمران خان کے لئے بدشگونی ہے۔
ان دو مضامین میں دئے گئے دلائل کو پیش نظر رکھا جائے تو عمران خان کی مستقبل میں سرکار بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس میں شک نہیں کہ فوج کو اس وقت زبردست نظریاتی بحران کا سامنا ہے کیونکہ تحریک انصاف اور فوج کا کیچ منٹ ایریا (catchment area)ایک ہی ہے۔
فوج اپنے ہی حلقے (مڈل کلاس، اَپر پنجاب، کے پی کے سیٹلڈ ڈسٹرکٹس،یورپ امریکہ میں موجود تارکین وطن)میں غیر مقبول ہے۔عمران خان اسی بنیاد پر جوا کھیل رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس امید پرستی کے لئے یہی محاذ اہم ہے۔
ایسے میں سوشلسٹ حلقوں کا موقف کیا ہونا چاہئے؟
عمران خان میں کسی قسم کی خوش فہمی نہیں پالنی چاہئے۔ عمران خان کلین شیو جماعت اسلامی ہے۔ تحریک انصاف مزدور دشمن،عورت دشمن سیاسی مظہر ہے۔ اس کا لیکن یہ مطلب بھی نہیں کہ فوج کی حمایت کی جائے۔ خوش قسمتی سے ملک میں بائیں بازو کا کوئی گروہ بھی اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
دوم، فوج اور تحریک انصاف کی لڑائی ابھی چلے گی۔ اگر کسی موقع پر یہ تضاد حل بھی ہوا تو ملک کو درپیش معاشی و سیاسی بحران حل نہیں ہو گا۔ بائیں بازو کو اپنا کام جاری رکھنا ہو گا۔یہ الگ بات ہے کہ بائیں بازو کے بعض حلقے اس سمت میں گامزن نہیں جس سمت میں انہیں جانا چاہئے۔ اس ضمن میں چند گزارشات یہاں پیش کی گئی تھیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔