فاروق سلہریا
بدھ کے روز ترکی نے شام کے اندر قائم کردوں کے آزاد علاقے ”روجاوا“ پر زمینی اور فضائی فوجی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔ جمعرات کو بھی ترک بمبار طیارے شہری علاقوں پر بمباری کرتے رہے جس سے کرد ذرائع کے مطابق پانچ مگر ترک دعوؤں کے مطابق سو افراد ہلاک ہوئے۔
ستم ظریفی دیکھئے ابھی دو ہفتے قبل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردگان دنیا کو فلسطین کا نقشہ دکھا کر یہ بتا رہے تھے کہ اسرائیل فلسطین کے ساتھ پچھلے ستر سال سے جبر و زیادتی کر رہا ہے۔
اسی اجلاس کے دوران موصوف نے عمران خان اور ملائشیا کے رہنما مہاتیر محمد کے ہمراہ ایک ایساٹیلی وژن چینل شروع کرنے پر بھی زور دیا جس کا واحد مقصد مغرب میں اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد ہو۔
پاکستانی میڈیا میں موصوف گاہے بگاہے کشمیر کے چیمپیئن بنا کر بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے علاوہ بھی رجب طیب اردگان عالمی سطح پر اسلام کا چیمپیئن بننے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔
اسلام کے اس چیمپیئن سے پوچھا جائے کہ کیا کرد مسلمان نہیں ہیں؟
یہاں ضروری ہے کہ تھوڑی سی وضاحت روجاوا (عربی میں:روج آفا) بارے بھی کر دی جائے۔ شمالی شام میں یہ وہ علاقہ ہے جہاں کردوں کی اکثریت ہے۔ شام میں جس المئے نے جنم لیا اس کی ہولناکیاں انسانیت کو شرما دیتی ہیں مگر اس المئے کے دوران اگر کہیں کوئی اچھی پیش رفت تھی تو وہ تھا روجاوا کا خطہ۔ کردوں نے نہ صرف یہاں سے حافظ الاسد کی افواج کو مار بھگایا بلکہ داعش کو بھی شکست دی اور اس آزاد خطے میں ایک انتہائی ترقی پسندانہ نظام ِ حکومت و معاشرت متعارف کرایا۔
اس نظام حکومت کے‘گراس روٹ جمہوریت، فیمن ازم (یاد رہے کرد فوج یعنی پیش مرگہ کا ایک اہم حصہ کرد خواتین پر مشتمل ہے) اور ماحولیات بنیادی اصول ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ میں اس قدر ترقی پسندانہ سیاسی نظام پچھلی کئی دہائیوں سے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اسلام کے چیمپیئن نے صرف کرد مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا۔ ترکی کے مذہبی جنونی صدر نے ایک ترقی پسند نظام پر بھی حملہ کیا ہے۔
جواز کیا ہے؟
جواز وہی گھسا پٹا کہ یہ علاقہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔
اسرائیل بھی تو فلسطینیوں کو دہشت گرد کہہ کر ہلاک کر رہا ہے۔ بھارت بھی تو کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔
اب باضمیر اور باخبرلوگ ترکی کے اندر بھی یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ جنگ کا ایک ہی جواز ہے: اسلام کا سب سے بڑا ”چیمپیئن“ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کرد اُس کے پڑوس میں آزادانہ انداز میں رہیں۔ اس کا بہت برا اثر ترکی کے زیرِ قبضہ کرد علاقوں پر پڑ رہا ہے۔ مزید خطر ناک بات یہ ہے کہ روجاوا کی فیمن ازم، جمہوریت اور ماحولیات دوستی پورے خطے کے آمروں کے لئے بد شگونی ہے۔ اس لئے کوئی عرب ملک یا ایران کردوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
امریکہ تو پہلے ہی کردوں سے دھوکا کر چکا ہے۔ اس علاقے میں امریکی افواج تعینات تھیں۔ صدر ٹرمپ نے تر ک جارحیت سے عین دو دن قبل اپنی افواج کو انخلا کا حکم دے کر ترکی کو گرین لائٹ دی (یاد رہے ٹرمپ کا استنبول میں ذاتی کاروبار بھی ہے)۔ یورپی یونین منافقانہ نعرے بازی ضرور کر رہی ہے مگر سیدھی سی بات ہے: ترکی ناٹو کا رکن ہے۔ اگر یورپی یونین سنجیدہ ہے تو اپنے ناٹو اتحادی سے تعلق توڑ لے۔ ایسا نہیں کیا جائے گا۔
سامراجی منافقت جتنی ہی شرمناک ان بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کی منافقت ہے‘ جو کشمیر، فلسطین یا روہنگیا مسلمانوں کا رونا تو روئیں گے مگر یمن اور کردستان کی بات نہیں کریں گے۔ رجب طیب اردگان کو پاکستان میں ہیرو بنانے میں جماعت اسلامی کا کلیدی کردار ہے۔ پوچھنا یہ تھا جماعت اسلامی کرد مسلمانوں کے حق میں کب’ملین مارچ‘ کر رہی ہے؟یا مسلمانوں کی محبت میں پاگل ہو جانے والا تجارتی میڈیا کب ترکی کے مظالم پر بریکنگ نیوز چلانا شروع کرے گا؟ شاہ محمود قریشی کب ترک سفیر کو بلا کر جواب طلب کر رہے ہیں؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔