فاروق طارق
میاں نواز شریف لاہور کے سروسز ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں ہیں۔ ان کے پلیٹیلیٹس خطرناک حد تک چھ ہزار پر ہیں اور ان کے اس درجہ کم ہونے سے ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان کے لئے تشکیل کردہ نئے میڈیکل بورڈ میں ان کے ذاتی معالج کو بالآخر شامل کر لیا گیا اور اس کا طویل اجلاس رات بارہ بجے تک اس رپورٹ کے لکھتے وقت تک جاری تھا۔
میاں نواز شریف کی عیادت کے لئے کچھ گھنٹوں کے لئے پیرول پر رہا ہونے والی انکی بیٹی کو صبح سویرے دوبارہ کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا گیا تھا جنہیں اب دوبارہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے باپ کے پاس انکی عیادت کے لئے ہسپتال آ جائیں۔
میاں نواز شریف کی اس اچانک شدید بیماری نے حکمران طبقات کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب طرح طرح کی ہمدردی کے پیغامات دئیے جارہے ہیں۔عمران خان نے بھی دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، ان کو بہترین میڈیکل سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اپنے ان وزیروں اور ترجمانوں کو نواز شریف کی صحت بارے کمنٹس کرنے سے بھی منع کیا ہے جو نواز شریف کی بیماری بارے طنزیہ جملے بازی کرنے کی گھٹیا حرکتوں میں مصروف تھے۔
لاہور اور اسلام آباد کی ہائی کورٹس میں بھی ان کی ضمانت بارے درخواستوں پر آج سماعت ہو گی۔ لگتا ہے کہ ان کی ضمانت پررہائی منظور ہو جائے گی۔ لیکن اس رہائی سے قبل انہیں اپنی بیماری سے رہائی کی ضرورت ہے۔ حکومت اب انہیں بیرون ملک بھیجنے پر بھی آمادہ نظر آتی ہے مگر نواز شریف نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ باہر نہیں جائیں گے۔ وہ سارا ملبہ یہاں رہ کر موجود ہ حکمرانوں پر ہی ڈالنا چاہتے ہیں۔
میاں نواز شریف کی یہ خراب صورتحال نیب کی حراست کے دوران ہوئی۔ جس کے سربراہ جاوید اقبال نے آج تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”نیب سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج نہیں کرتی“۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے۔ نیب پچھلے پورے عرصہ میں سیاسی انتقامی کاروائیوں کے لئے مسلسل ایک ہتھیار بنا رہا ہے۔ اس نے بدعنوانی کے خاتمے کے دوہرے معیار مقرر کئے ہوئے ہیں۔
میاں نواز شریف کو سزا دلوانے کے لئے جو کچھ نیب عدالت کے جج ارشد ملک کی لیک شدہ ویڈیو میں بتایا گیا اس سے ہی معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کی عدالتیں سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لئے کس طرح استعمال ہوتی ہیں۔
نواز شریف کی اس صورتحال کو بگاڑنے میں موجودہ حکمرانوں کا خصوصی ہاتھ ہے، ان کے سامنے ان کی ملاقات کے لئے آئی بیٹی مریم کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ مسلم لیگ ن کی تاریخ کے بڑے اجتماعات سے روزانہ خطاب کر رہی تھی۔
نواز شریف کی یہ بیماری حکمرانوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔ان کے لئے لعن طعن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی مقبولیت مسلسل کم ہو رہی ہے اور اب ان کو نواز شریف کو بچانے کی پڑی ہوئی ہے، پہلے مارنے پر تلے ہوئے تھے اب بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اگر نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو یہ موجودہ حکومت کے خاتمے میں شدید تیزی کا سبب بن سکتا ہے۔