دنیا

کامریڈ صدر؟ سری لنکا میں مارکس واد کی دعویدار جماعت کیوں جیتی؟

بالاسنگھم سکنتھا کمار

سری لنکا کے نئے صدر ایک پسماندہ دیہی علاقے میں پیدا ہوئے، جو زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر مشتمل تھا اور ہموار زمینوں کی کمی تھی۔ انہوں نے زندگی بہتر بنانے کے لیے ہجرت کی، جیسے دیگر لوگ خشک زون میں آبپاشی سے چلنے والے شمالی اور وسطی علاقے میں ہجرت کرتے تھے۔ ان کے والد ایک سرکاری محکمے میں معمولی گریڈ کے ملازم تھے اور ان کی ماں نے چاول کے چھوٹے کھیتوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ایک وسیع گھرانے کی دیکھ بھال بھی کی۔ وہ اپنے قریبی خاندان کے پہلے فرد تھے جنہوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، ایک سرکاری یونیورسٹی میں فزیکل سائنس کی تعلیم حاصل کی۔

کیلنیا یونیورسٹی میں 1980 کی دہائی کے اواخر میں وہ اس وقت کی زیر زمین جناتھا ویمکتی پیرامونا (جے وی پی۔پیپلز لبریشن فرنٹ) کے ایک طالب علم کارکن تھے ۔ جے وی پی پر 1983 میں دائیں بازو کی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی اور پھر اس کی دوسری ریاست مخالف بغاوت کے دوران 1987 اور 1989 کے درمیان سخت جبر کیا گیا۔ پارٹی کی قانونی حیثیت بحال ہونے کے بعد وہ ایک کل وقتی کارکن بن گئے اور انتخابی سیاسی کے ذریعے دوبارہ پارٹی کو تعمیر کرنا شروع کیا۔ ایک استحصال زدہ اور پسماندہ طبقے کے فرداوراس کے ساتھ ساتھ باضابطہ طور پر مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی کے رہنما کے سری لنکا کے گالسٹ طرز کے نظام میں ریاست اور حکومت کے سربراہ کے طور پر انتخاب نے اس سانچے کو توڑ دیا ہے۔

تبدیلی کا امیدوار

انہوں نے اگرچہ سوشلسٹ یا سرمایہ دارانہ مخالف پلیٹ فارم پر مہم نہیں چلائی، بلکہ دہائیوں پرانے انحطاط پذیر سیاسی کلچر میں‘تبدیلی’کے لیے آواز اٹھائی ۔ اس سیاسی کلچر کو ہر طبقے، صنف، نسل اور علاقے سے تعلق رکھنے والے آبادی کے بڑے حصے نے 2021-22کی معاشی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا تھا، جب سری لنکا 32ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر ڈیفالٹ کرنے کے بعد دیوالیہ ہو چکا تھا۔

نئے صدر کو ووٹ دینے اور نہ دینے والے تمام لوگوں کو توقع ہے کہ ان کی حکومت اس سیاسی کلچر کو تبدیل کر دے گی، جس میں سیاستدان انتخابات کے درمیانی عرصہ میں عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں،مراعات سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے دفتروں کے ذریعے سیاسی جماعتوں، مقامی اور غیر ملکی کاروباری سودے بازی اور رشوت سے منافع کماتے ہیں، حکومتی اور بین الاقوامی ٹینڈرز اور معاہدوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اوراپنی بداعمالیوں اور جرائم پر سزاؤں، مقدمات اور استغاثہ سے استثنیٰ حاصل کرتے ہیں۔

یہ 2022 کی عوامی بغاوت کا جذبہ تھا جسے جنتھا اراگالیا (سنہالا زبان میں ‘عوامی جدوجہد’) کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تحریک قلیل المدتی تھی، لیکن اس نے نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) نامی اتحاد کی مقبولیت میں بڑے پیمانے میں اضافہ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس اتحاد کا آغاز جے وی پی نے 2019میں اپنی طبقاتی بنیاد کو بائیں بازو کی پیٹی بورژوا اور محنت کش طبقے کی تہوں سے لے کر زیادہ قدامت پسند طبقوں تک وسیع کرنے کیلئے شروع کیا تھا اور اس نے انوراکماراڈیسانائیکے(اے کے ڈی) کیلئے ایوان صدر کی راہ ہموار کی۔

ان کی پارٹی روایتی سیاسی طبقے سے باہر ہونے کی وجہ سے کرپشن کے الزامات سے بے داغ ہے۔ اس نے کئی سالوں سے انسداد بدعنوانی کو ہی اپنا مرکزی نعرہ بنایا ہے، جو لوگ اس مبہم اورفریب انگیز ‘تبدیلی’ کے خواہاں ہیں وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔انہوں نے دائیں بازو کے دو مرکزی دھارے کے (سابق صدر رانیل وکرما سنگھے اور پارلیمانی اپوزیشن کے رہنما ساجیت پریماداسا کے گرد قائم ہونے والے)اتحاد وں کے امیدواروں کو بجا طور پر مسترد کر دیا۔

اکثریت سے کم ہونے کے باوجود این پی پی نے 5.6ملین(42فیصد) سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اوروہ وسطی، مشرقی اور شمالی علاقوں کی نسلی اقلیتوں کے علاوہ 22میں سے 15انتخابی اضلاع میں آگے ہے۔اس کا ووٹ بیس اکثریتی سنہالا قوم (75فیصد آبادی) سے ہے۔ تاہم اس بار اس نے جزیرے کے ارد گرد مسلم اور تامل اقلیتوں میں ، خاص طور پر نوجوانوں سے پیروکار حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں۔

225 نشستوں والی مقننہ میں کابینہ بنانے کے لیے اس کے صرف تین ارکان ہیں۔ یوں یہ دنیا کی سب سے چھوٹی کابینہ ہے۔ نئے صدر کے ابتدائی اقدامات میں سے ایک پارلیمنٹ کی جلد تحلیل تھی(جس کے وہ آئینی طور پر حقدار ہیں)۔ عام انتخابات 14نومبر کو ہونگے اور نئے ایوان کی پہلی نشست اس کے ایک ہفتے بعد ہوگی۔ ایین پی پی کو حکومت بنانے کے لیے 113نشستیں درکار ہیں۔ یہ صدارتی انتخاب جیتنے سے زیادہ سخت چیلنج ہے۔

آیا این پی پی حکومت سیاسی نظام کو دوبارہ ترتیب دے گی جیسا کہ اس کے حامیوں کی توقع ہے، یا اس میں ضم ہوجائے گی، جیسا کہ اس کے کبھی پرانے بائیں بازو کے حریف، سابق ٹراٹسکی اسٹ لنکا سما سماجا پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف سری لنکا نے کیا ۔یہ ایک بڑا سوال ہے۔

امیروں کے لیے استحکام

راجا پکسا کی حامی پارلیمانی اکثریت اور حزب اختلاف سے انحراف کرنے والوں کے ساتھ شراکت سے قائم ہونے والی رانیل وکراماسنگھے کی حکومت امیروں کے لیے معیشت کو مستحکم کرنے اور اس کی ترقی کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح0.5فیصڈ تک کم تھی۔ قابل استعمال غیر ملکی ذخائر4.6ارب امریکی ڈالر تھے۔ زرمبادلہ شرح امریکی ڈالر کے مقابلے میں 300سری لنکن روپے کے قریب مستحکم ہو گئی ہے۔ اس سال مجموعی جی ڈی پی میں تقریباً4فیصد کا اضافہ ہوگا۔

تاہم امیروں کی طرح غریب ایندھن، خوراک اور ادویات جیسی اشیائے ضروریہ کے لیے قطاروں میں نہیں کھڑے ہیں، بلکہ امیروں کے برعکس غریبوں کے پاس ان کی قیمت ادا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ٹیرف میں 140 فیصد اضافے کے بعد بجلی کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن پچھلے سال 10 لاکھ گھرانوں کا گرڈ سے رابطہ منقطع کر دیا گیا تھاکیونکہ وہ بل برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ یوکرین پر روس کے تازہ حملے کے بعد خوراک کی قیمتوں میں اوسطاً تین گنا اضافہ ہوا اور 2022 کی اقتصادی تباہی میں روپیہ لگاتار زوال کی طرف جا رہا ہے، جس کی وجہ سے 24فیصد گھرانے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوئے ہیں۔ ہر چار میں سے ایک فرد سرکاری طور پر متعین غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔

سری لنکا نے 1965 کے بعد سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )کے ساتھ مارچ2023میں 17 واں قرض کا معاہدہ کیا۔ چار سالوں کے دوران 2.9ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت(Extended Fund Facility) دو بار سالانہ قسطوں میں تقسیم کی جاتی ہے جو کہ معیشت کی ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں پیشرفت کے معیارات کو پورا کرنے پر مشروط ہے۔

اہداف

2025 تک مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)کا 2.3 فیصد کا بنیادی بجٹ سرپلس (جو کہ اخراجات پر حکومتی محصول ہے)؛
2027 اور 2032 کے درمیان حکومت کی قرض لینے کی ضرورت (مجموعی مالیاتی ضروریات) کو مجموعی گھریلو پیداوار کے 13 فیصد تک کم کرنا؛
2032 تک مجموعی گھریلو پیداوار اور عوامی قرضوں کے تناسب کو 95 فیصد تک کم کرنا۔
یہ فرض کرتے ہوئے کہ تمام ریاستی اخراجات میں سکڑاؤ اور روزگار اور آمدنی میں اضافے کیلئے عوامی اخراجات پر کٹوتیوں کی قیمت پر یہ اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں۔سری لنکا کا کل قرضوں کا ذخیرہ2027میں اس سے زیادہ ہو جائے گا، جو2023میں تھا۔ ایک سابق امریکی ٹریژری اہلکار کے مطابق بیرونی قرضوں کی سروس 2027 تک حکومتی آمدنی کا 30 فیصد حصہ لے جائے گی، جس سے ان کے خیال میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ایک اور قرض کا ڈیفالٹ ناگزیر ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام جن ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو فروغ دیتا ہے، جن کی سیاسی، انتظامی اور سول سوسائٹی کی طرف سے پرجوش حمایت کی جاتی ہے، درج ذیل ہیں:

٭بالواسطہ ٹیکس میں اضافہ، جو کہ رجعت پسند ہے کیونکہ غریب امیروں کے مقابلے غیر متناسب طور پر باہر نکلتے ہیں۔
٭بینک کی شرح سود میں اضافہ قرضے کو مزید مہنگا بناتا ہے ،مائیکرو اور چھوٹے کاروباری اداروں کو نشانہ بناتا ہے۔
٭گھریلو قرضوں کی تنظیم نو، جہاں پبلک سیکٹر ریٹائرمنٹ فنڈز بڑے سرمایہ کار تھے، جس کے نتیجے میں فوائد کی حتمی قیمت میں زبردست کٹوتی ہوئی۔
٭سرکاری پے رول کو کم کرنے کے لیے پبلک سیکٹر کے کارکنوں کی چھانٹی ، جوعوامی خدمات کو مزید ختم کرتاہے اور نجی شعبے کے فراہم کنندگان کے لیے مارکیٹ کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
٭عوامی سامان جیسے ٹرانسپورٹ اور کھانا پکانے کے لیے ایندھن اور مارکیٹ کی قیمتوں کے ذریعے بجلی پر سبسڈی ختم کرنا۔
٭‘سوشل سیفٹی نیٹس’کے لیے سماجی تحفظ کے نظام کو ختم کرنا جو آمدنی اور اثاثوں کی بنیاد پر مخصوص گروپوں کو‘ہدف’بناتے ہیں۔
٭لیبر کوڈ کی ڈی ریگولیٹری تزئین و آرائش کے ذریعے لیبر مارکیٹ کو عارضی بنانا( مستقل روزگار کا خاتمہ)؛ خوراک سے متعلق فصلیں کاشت کرنے والے چھوٹے کسانوں کو الاٹ کی گئی زرعی زمینوں کو تجارتی(برآمدی) فصلوں کی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے کی ہولڈنگز میں یکجا کرنا؛ اور
٭حکومت کی طرف سے سرمائے کے اخراجات کے منصوبوں کو منجمد کرنا، جس کے اثرات عوامی بنیادی ڈھانچے، عوامی خدمات کی فراہمی، تعمیراتی صنعت اور روزگار پر پڑیں گے۔

آئی ایم ایف معاہدہ اور اقتصادی سمت

این پی پی اتحاد کی اہم جزو جے وی پی کی ابتدا ء 1960 کی دہائی میں نوجوانوں کی ریڈیکلائزیشن کے دوران گویراسٹ اور ماؤسٹ جھکاؤ رکھنے والی ایک انقلابی سوشلسٹ پارٹی کے طور پر ہوئی۔ لہٰذا تاریخی طور پر اس کا تعلق سامراج مخالف سیاست سے ہے جس میں بریٹن ووڈز کے اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے دشمنی بھی شامل ہے۔

1994کے بعد جب سے جے وی پی پارلیمانی سیاست میں داخل ہوئی تب سے اس نے مخلوط معیشت کو قبول کیا، جس میں معیشت میں ریاست کا اہم کردار ہو۔ جو کہ سرمایہ داری کے قابل اعتبار متبادل کے طور پر سوشلزم کے بحران سے پہلے یورپ میں ‘سوشلسٹ’ بلاک کے خاتمے کے جغرافیائی سیاسی تناظر اور عالمی سرمایہ داری میں انضمام اور نجی سرمائے کی حوصلہ افزائی کے ساتھ چین کی مارکیٹ اصلاحات کے ماڈل کی وجہ سے کیا گیاتھا۔ حال ہی میں ویتنام میں بھی اس کی کامیابی کے بعد وہ اسی ماڈل کو نقل کرنا چاہتی ہے۔

اگرچہ جے وی پی اور این پی پی نیو لبرل ازم کے حامی نہیں ہیں، نہ ہی یہ 2024کی انتخابی مہم اور اس کے منشاور اور پالیسی پیپرز کی بنیاد پر مربوط طور پر نیولبرل مخالف ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ این پی پی اور نئے صدر نے ملک سے اپنے پہلے خطاب میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے جاری پروگرام سے الگ نہ ہونے کا عہد کیا ہے۔ وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ معاہدہ پہلے سے رونما ہو چکا ایسا واقعہ ہے، جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ سرکاری اور نجی قرض دہندگان کے ساتھ قرض کی تنظیم نو کے مذاکرات کے لیے پیشگی شرط ہے۔یہ بھی بتایا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور عوام کی توقع ہے کہ دونوں کی تسلی بخش تکمیل ہوگی۔

اس کی بجائے این پی پی کا کہنا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے قرض کی پائیداری کے جائزے پر نظرثانی کرے گا، جو بشمول سخت کفایت شعاری کے اقدامات کے اس کی پالیسی کی شرائط کے لیے تکنیکی دلیل فراہم کرتا ہے۔ نئی حکومت نے موجودہ فریم ورک کے اندر غریب اور نچلے متوسط طبقے کے ٹیکس میں کمی، عوامی ملکیت میں کچھ سرکاری اداروں (ایک ایسا شعبہ جس میں جے وی پی کی کافی حد تک ٹریڈ یونین موجود ہے) کو برقرار رکھنے ، غیر سٹریٹجک کاموں کی فروخت کا دروازہ کھلا چھوڑنے،حکومتی اخراجات کو معقول بنانے، برآمدی محصول میں اضافہ کرنے، تیز رفتار گھریلو پیداوار کے ذریعے درآمدی اخراجات کو کم کرنے، اورسری لنکا کے بیرونی ذخائر کو فروغ دینے کے ذریعے ‘‘مالیاتی استحکام’’ کو فروغ دینے جیسی تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بیرونی قرضوں کا ‘فارنزک آڈٹ’ کرائیں گے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کم از کم کچھ ناگوار اور ناجائز قرض ہیں، اور ان کا بوجھ شہریوں اور آنے والی نسلوں پر نہیں ڈالا جانا چاہیے۔

حکومت نے بار بار آئی ایم ایف معاہدے اور قرضوں کی تنظیم نو کے جاری عمل پر اپنی وفاداری پر اصرار کیا ہے۔ یہ جزوی طور پر پالیسی اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے وسیع طبقوں کے خوف کو دور کرنے کے لیے ہے،کیوں کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ ٹوٹنے سے بیرونی قرض دہندگان کے ساتھ مذاکرات میں خلل پڑ جائے گا اور معاشی عدم استحکام پیدا ہو جائے گا۔ یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ نئی حکومت اپنے آپ کو سری لنکا کے اندر اور باہرریڈیکل کی بجائے ذمہ دار اور اور اصول پسندکی بجائے عملیت پسند کے طور پر دیکھا نا چاہتی ہے۔

این پی پی آزاد تجارت، غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدی رجحان کا بھی حامی ہے۔ یہ پرائیویٹ ہیلتھ اور ایجوکیشن سروسز کی توسیع کو ریورس نہیں کرے گا بلکہ صارفین کے مفاد میں اسے ریگولیٹ کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ گھریلو پیداوار کو بڑھانے (یعنی نام لیے بغیر درآمدی متبادل)، سرکاری اداروں کی نجکاری کی مخالفت، اور کمزور گروپوں (بزرگوں، پنشنرز، نوجوان ماؤں اور چھوٹے بچوں والی خواتین، معذور افراد اور دائمی بیماریوں وغیرہ) کے لیے توسیع شدہ سماجی پروگرام اور بجٹ مختص کرنے کے حوالوں سے کلاسک نیو لبرل اصولوں کو متوازن کرتا ہے۔

اس نے بڑھتے ہوئے فوجی بجٹ سے متعلق کسی بھی حوالے کو بڑی احتیاط سے نظر انداز کیا ہے، جو قومی بجٹ کے 7فیصد پر مشتمل ہے اور صحت اور تعلیم کے مشترکہ بجٹ جتنا حجم رکھتا ہے۔ یہ اسکینڈل سیاسی طور پر ناقابل تسخیر ہے کیونکہ سنہالا قوم پرست ریاست کی طرف سے 1983 اور 2009 کے درمیان تقریباً تین دہائیوں کی جنگ کے دوران قومی سلامتی کے نظریے کو فروغ دیا گیا ہے۔ دولت اور آمدن کی دوبارہ تقسیم سے متعلق این پی پی کے حوالے بہت کم ہیں، تاکہ ان طبقوں کو پریشان نہ کیا جائے، جن کی منظوری اس کیلئے بہت اہم ہے۔

جو بات ابھی تک معلوم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آیا نئی حکومت کا موقف اس وقت متزلزل ہوگا یا نہیں، جب آئی ایم ایف اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کا قرض کی پائیداری کا اندازہ طریقہ کار کے لحاظ سے بے عیب ہے، اور اس کا پروگرام اتنا مکمل طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں مزید بہتری کی گنجائش نہیں ہے۔

نئی حکومت آئی ایم ایف معاہدے کے دائرہ کار میں عوامی سرمایہ کاری کی سطح کے لیے مالیاتی جگہ کیسے پیدا کرے گی ،جو اس کے اخراجات کے اہداف کے لیے درکار ہے؟ کیا یہ دو طرفہ اور تجارتی قرض دہندگان کے ساتھ حال ہی میں طے شدہ (لیکن مہر بند نہیں) مذاکرات کو دوبارہ کھولے گا، تاکہ قرض کے ذخیرے پر زیادہ ‘ہیر کٹ’ حاصل کر سکے، اور مجموعی طور پر آنے والی حکومت کو مجبور کرنے کے لیے پچھلی حکومت کی طرف سے جلد بازی میں کی گئی ڈیل سے بہتر ڈیل حاصل کر سکے گا؟

بنیادی بجٹ سرپلس ،ڈیٹ ٹو جی ڈی پی کے تناسب کے اہداف، اور 2027کے بعد دو طرفہ اور تجارتی قرضوں کی ادائیگی کے آغاز جیسی شرائط کی بجائے کیایہ(این پی پی) آئی ایم ایف اور قرض دہندگان سے کہے گا کہ اس کی ترجیح ان لوگوں کے معیار زندگی کا دفاع کرنا ہے جو بحران اور کفایت شعاری کے اقدامات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، اور معیشت کو ایسے طریقوں سے بڑھانا ہے جس سے اکثریت کو فائدہ ہو ؟

اقلیتی سوالات

2022 کی عوامی بغاوت کے بعد سے نسلی کشیدگی میں کمی آئی ہے ،جہاں نسل اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کے بیج بونے والی ایک زوال پذیر ‘اشرافیہ’ اور ان کے ‘نظام’کے خلاف ‘عوام’ کی اجتماعی شناخت پیش کرنے کی شعوری کوششیں کی گئی تھیں ۔ 2024 کی انتخابی مہم کو نہ صرف انتہائی پُرامن قرار دیا گیا ہے بلکہ اس میں نسلی اور مذہبی تناؤ (جو یقیناباقی ہے) کوسرکردہ امیدواروں کی طرف سے نہیں ابھارا گیا۔

این پی پی نسل پرست نہیں ہے اور اس کے ارکان اور قیادت میں (اگرچہ بڑی تعداد میں نہیں لیکن) شمال مشرقی نژاد تامل، ہل کنٹری تامل اور مسلمان (سری لنکا میں نسلی و مذہبی شناخت) شامل ہیں۔

جب کہ این پی پی کا منشور تنازعات سے متاثرہ شمال اور مشرق میں تاملوں کے کچھ اہم خدشات کی نشاندہی کرتا ہے ،جیسے کہ انسداد دہشت گردی کی قانون سازی کا خاتمہ اور سیاسی قیدیوں کی رہائی، لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے سچائی اور انصاف، ریاستی اداروں کے ذریعے زمینوں پر قبضوں کے خاتمے، سرکاری زبان کے قانون کے موثر نفاذ کے ذریعے تامل بولنے والوں کے لیے عوامی خدمات تک رسائی، زیادہ خود مختاری کے لیے صوبائی کونسل کے نظام کو دوبارہ فعال کرنا، رہائش، زمین، صحت اور تعلیم کے لیے ہل کنٹری تاملوں (پودے لگانے والے مزدور اور ان کی اولاد) کے سماجی و اقتصادی خدشات کو دور کرنا، اور اسی طرح کے بہت سے مبہم وعدے شامل ہیں، جن کے لیے وقت کا بھی کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے۔

جے وی پی اور این پی پی نے ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں اور بدھ مت کے پادریوں کو پیش کیا ہے، اور انہیں اپنے حامیوں کے طور پر منظم کیاہے ۔ یہ دونوں گروپ جنگی جرائم کی تحقیقات اور ریاستی سیکورٹی فورسز کی جوابدہی ، اور وفاقیت کی سمت میں وحدانی ریاست کی تشکیل نو کے خلاف ہیں۔ نئے صدر نے انتخابات سے پہلے کی میٹنگوں میں اس بات پر زور دیا کہ موجودہ آئین میں بدھ مت کو تقدس کی حد تک اولین حیثیت (ریاستی مذہب کی قانونی حیثیت کے قریب) دی گئی ہے، جبکہ عیسائیوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کو یقین دلایا کہ ان کے عقیدہ کے حق کا ریاست کی طرف سے تحفظ کیا جائے گا۔

نئے صدر نے ایک نئے اور جمہوری آئین کا وعدہ کیا ہے جو صدارت کے آمرانہ ادارے کو ختم کر دے گا، اور ساتھ ہی ساتھ ان خطوں کو بھی زیادہ طاقت دے گا جن میں قومی اقلیتیں آباد ہیں۔ تاہم جب تک کہ وہ 14 نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں پارلیمانی اکثریت حاصل نہیں کر لیتے، اور/یا دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحادی تلاش نہیں کرتے، ان کے پاس ان علاقوں میں فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنے کے لیے تعداد کی کمی ہے۔

ان کا پارٹی اتحاد اور وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کی بنیادی انتخابی بنیاد ڈی کالونائزیشن کے بعد سے سنہالی بالادستی میں ڈھکی ہوئی ہے۔ یہ حلقہ اس آئین سازی میں سب سے زیادہ عدم دلچسپی رکھتا ہے، یا بدترین طور پر مخالف ہے، جسے قومی اقلیتوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق اور ریاستی طاقت میں حصہ دینے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

2022 کی عوامی بغاوت 2024 کے صدارتی انتخابات کے نتائج میں گونج رہی ہے۔ سری لنکا میں ترقی پسند تبدیلی کے امکانات اگلے چند مہینوں کی سیاسی اور سماجی حرکیات ، خاص طور پر محنت کشوں کی جدوجہد اور تنظیموں کی نیند بیداری پر منحصر ہیں۔

Balasingham Skanthakumar
+ posts

بالاسنگھم سکنتھا کمار  سی اے ڈی ٹی ایم جنوبی ایشیا کے رکن ہیں اور کولمبو میں سماجی سائنسدانوں کی ایسوسی ایشن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔