پاکستان

بائیں بازو کی تنزلی اور سلمان اکرم راجہ کی خواہشیں

حارث قدیر

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ’ایکس‘ پرایک ٹویٹ کرتے ہوئے پاکستانی بائیں بازو کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ٹویٹ میں انکا کہنا تھا کہ ’جس دن پاکستانی لیفٹ نے بنیادی اصولوں، اخلاقیات اور عوامی حقوق پر کھڑا ہونا شروع کر دیا وہ ترقی کرنا شروع کر دے گا۔‘

اسی ٹویٹ کی ابتدا میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ’پاکستانی دانشوروں کو اخلاقی اور سیاسی تباہی کے بعد محض ٹویٹ کرنے سے کچھ زیادہ کرنا چاہیے۔‘

پاکستانی بائیں بازو کے ترقی کرنے میں ناکام رہنے کی وجوہات بے شمار ہیں، تاہم 26ویں ترمیم کی مخالفت یا تحریک انصاف کی لڑائی میں ساتھ نہ دینا کم از کم ترقی نہ کرنے کی وجہ نہیں ہے۔

بائیں بازو کی ترقی میں حائل رکاوٹوں یا مسائل پر بحث کو کسی اور وقت کے لیے چھوڑتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کی خواہش کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

سلمان اکرام راجہ تحریک انصاف کے وکیل ہیں اور پاکستان کے جانے مانے لبرل کہلائے جانے والے وکیل ہیں۔ تحریک انصاف اور سلمان اکرم راجہ دونوں ہی پاکستان میں آئین کی حکمرانی، جمہوریت کی بقاء، بنیادی سیاسی اصولوں، اخلاقیات اور انسانی حقوق وغیرہ پراسی وقت آواز اٹھاتے ہیں، جب انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا جائے۔ صرف وہی نہیں باقی حکمران جماعتیں بھی ایسا ہی کرتی آئی ہیں۔

عمران خان کی سیاست کے آغاز اور تحریک انصاف کے قیام کے پس منظر سے لے کر آج تک کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو غیر جمہوری قوتوں کی مدد اور حمایت حاصل کرنا ہی ہمیشہ ان کی اولین کوشش رہی ہے۔ مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد سے اب تک جو کچھ اس جمہوری دور میں آئینی حقوق، آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کے ساتھ ہوا ہے، اس میں عمران خان اور تحریک انصاف کا کردار کلیدی تھا۔

بایاں بازو البتہ مشرف آمریت ہی نہیں بلکہ ہر آمریت کے خلاف برسر پیکار رہا ہے۔ ہر جمہوریت مخالف اقدام کے خلاف بائیں بازو کی جدوجہد موجود رہی ہے۔ آئینی حقوق کی بازیابی کے لیے بھی ہر عہد میں محدود قوتوں کی بنیاد پر ہی سہی لیکن جدوجہد ضرورکی جاتی رہی ہے۔

بہت زیادہ ماضی میں جائے بغیر ہائبرڈ رجیم سے ہی شروع کریں تو تحریک انصاف اور عمران خان جب ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کے لیے فوجی اشرافیہ کے منصوبوں پر عمل پیرا تھے، اس وقت بھی بایاں بازو اس عمل کے خلاف اپنی بساط کے مطابق آواز اٹھاتا رہا ہے۔

تحریک انصاف نے ہائبرڈ اقتدار کی بنیاد رکھنے میں فوجی اشرافیہ کا بھرپور ساتھ دیا اور پہلی ہائبرڈ رجیم نے برسر اقتدار آکر پارلیمنٹ کو خفیہ اداروں کے آگے سرنگوں کروایا۔ آج جو کھیل 26ویں آئینی ترمیم کے لیے ممبران پارلیمنٹ کے اغواء اور دھمکیوں کی صورت کھیلا گیا، اس کی ابتداء بھی چند سال پہلے تحریک انصاف کے دور میں ہوئی۔ عمران خان نے بارہا اپنے انٹرویوز میں یہ بات تسلیم بھی کی کہ انہیں پارلیمنٹ میں بل پاس کروانے کے لیے ایجنسیوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔

اس سب کے باوجود غیر جمہوری اقدامات، انتخابی دھاندلیوں، پارلیمنٹ کی بے توقیری سمیت ہائبرڈ رجیم کے پورے ماڈل کے خلاف ہی اگر بات کرنی ہے تو پھر 2018کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے مستفید ہو کر شرمناک کردار ادا کرنے پر سلمان اکرم راجہ اور ان کے قائد عمران خان کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔

بایاں بازو البتہ 2018ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی ہائبرڈ رجیم کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہے،جس نظر سے اس ہائبرڈ رجیم کے خاتمے اور نئی ہائبرڈ رجیم کے لیے ہونے والی ساری انجینئرنگ کو دیکھتا ہے۔

جوآئینی ترامیم تحریک انصاف کے دور میں کی گئیں، عدالتوں اور ججوں کو جس طرح بلیک میل کر کے اپنے حق میں استعمال کیا گیا اور بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا گیا، وہ بھی ویسا ہی عمل تھاجیسا عمل اس وقت موجودہ ہائبرڈ رجیم 26ویں آئینی ترمیم تک کر چکی ہے۔

یوں یہ کہنا مناسب ہے کہ سلمان اکرام راجہ اور ان کے ہمنواؤں کے لیے کسی بھی طریقے سے حکومت میں آنا درست ہے، تاہم اگر وہی طریقہ اختیار کر کے دوسرا اقتدار میں آئے تو انسانی حقوق یا د دلانے والی منافقانہ پالیسی اپنا لی جاتی ہے۔

گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو حکمران طبقات کے یہ مختلف دھڑے بحران زدہ ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں بننے والی اندرونی لڑائی کے لیے استعمال ہونے والے مہروں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ تاریخی طور پر تاخیر زدگی کا شکار اس ریاست کا حکمران طبقہ کبھی اس ریاست کی قیادت کی بھاگ ڈور سنبھالنے کا اہل بن ہی نہیں پایا۔ اسی لیے سامراج اور سامراجی اداروں کے احکامات کی بجاآوری اور ریاست کے ساتھ ساز باز کے ذریعے ہی اقتدار کی راہ ہموار کرتا آیا ہے۔

یوں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے حقیقی جمہوریت اور آئینی بالادستی کے خواب دیوانے کے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ حقیقی آزادی اور تبدیلی ڈیپ سٹیٹ کے دھڑوں کا ماؤتھ پیس بننے اور سامراج کے ساتھ ساز بازکے ذریعے اقتدار میں آنے سے نہیں مل سکتی۔ حقیقی آزادی اور تبدیلی کے لیے اس نظام کو تبدیل کرنے کے پروگرام اور منشور پر محنت کش طبقے کی جدوجہد کو منظم کرنا ناگزیر ہے۔

یہ اقلیت کا نمائندہ نظام ہے، اس میں حکمرانی اقلیت کی ہے اور جمہوریت بھی اقلیت کی ہے۔اکثریتی عوام کے لیے بھوک، ننگ، لاعلاجی اور وحشت و بربریت کے سوا اس نظام میں کچھ نہیں ہے۔ اکثریتی عوام کی جمہوری شراکت پر مبنی ایک سوشلسٹ سماج ہی حقیقی انسانی آزادی کا ضامن ہو سکتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔