رابرٹ فسک
ترجمہ: رانا مبشر
لبنان کو جدید ریاست بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کو غیر مذہبی بنائیں لیکن پھر لبنان (جس کی واحد شناخت مذہبی فرقہ واریت ہے) کا وجود ختم ہوجائے گا۔
انقلاب ٹائر جلاکر احتجاج کرنے سے نہیں آیا کرتا۔ ایسی تصاویر صرف ٹی وی پر اچھی لگتی ہیں۔ باغیانہ نعرے اچھے لگتے ہیں، لیکن ایسی چند ایک کمزور آوازوں سے حکومتیں نہیں گرا کرتیں۔
یقیناً یہ صرف لبنانی حکومت نہیں ہے جس کی فرقہ پرست اشرافیہ اپنے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی مہم چلا رہی ہے بلکہ یہ اس وقت سے ہے جب سے فرانس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ لبنان کو ایک باہمی معاہدے کے تحت عیسائیوں، سنی مسلمانوں اور شیعہ کو تقسیم کرکے ایک فرقہ وارانہ ملک بنانا چاہئے۔
اس لیے انہیں ایک دوسرے سے خوف، حسد، عدم اعتماد اور غدار وطن کے القابات پر تقسیم کردیا گیا۔ یاد رکھیں، انگریزوں نے بھی فلسطین، قبرص اور شمالی آئرلینڈ میں ایسا ہی کیا تھا۔ فرانسیسیوں نے شام میں بھی ایسا ہی کیا تھا۔
”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ یہ صرف ایک فرسودہ خیال نہیں ہے بلکہ یہ اصول ہمیشہ سے بہت نتیجہ خیزرہا ہے۔ ہم مغرب کے لوگ ہمیشہ ہی محبت اور شکوک و شبہات کے تحت اقلیتوں اور اکثریتوں کے ساتھ ”انصاف“کروانے کی صلاحیت کے ماہر رہے ہیں۔ آپ ذرا عراق کی شیعہ ریاست کو دیکھیں جو کہ امریکہ کی تخلیق ہے۔ اس موقع پرہم کردش اقلیتوں کا ذکر نہیں کریں گے لیکن میرے نزدیک، لبنان کی حالیہ بغاوت کے بارے میں سب سے حیرت انگیز بات واٹس ایپ کے استعمال پر ٹیکس کا نفاذ، بے روزگاری اور سرکاری کرپشن کے خلاف احتجاج نہیں، بلکہ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ مشرقِ وسطی میں تمام خونریزی، ناکامیوں اور 2011ء کے انقلابات‘مستقل آمریت کے باوجود، شہری اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے سے ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں، حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
بلاشبہ یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔
میں ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ یہ لبنانی بڑی طاقتور قوم ہے۔ یہ لبنانی ہی تھے جنہوں نے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد، 2005ء میں شامی فوج کو لبنان چھوڑنے پر مجبور کیا، مپ سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ تیونس اور مصر سمیت کئی عرب ملکوں میں ان کے چاہنے والے موجود تھے۔ اس کے نتیجے میں خر دماغ قسم کے صدر محمود احمدی نژادکے خلاف ایران میں عوامی انقلاب برپا ہوا۔ احمدی نژاد ٹرسطی کی جدید تاریخ میں لبنان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ لبنان کے شہری اتنے باصلاحیت ہیں کہ اپنی طاقت اور صلاحیتوں سے خود بھی واقف نہیں ہیں۔ وہ سب سے پہلی قوم ہے جنہوں نے کسی غیر کو اپنے اوپر بادشاہ بناکر بٹھانے کی بجائے اسے پوری جرات اور ہمت سے للکارا، اس کی کوئی بھی بات ماننے سے سخت انکار کیا۔
لبنانی، اپنے مدِمقابل عرب بہنوں اور بھائیوں کے مقابلہ میں، کہیں بہتر تعلیم یافتہ ہیں اور شکر ہے کہ لبنانی فوج مصری یا عراقی فوج کی طرح نہیں ہے جو اپنے شہروں کی سڑکوں پر اپنے ہی مظاہرین کو گولیوں سے بھون دیتی ہے۔
آپ اس صورتحال کو سعودیوں، شامیوں اور الجزائریوں کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ عرب دنیا سے باہر ایرانیوں کی طرف نظردوڑائیں تو ایرانی سکیورٹی اداروں کو کس نے ملک کی جیلوں میں احمدی نژاد کے مخالفین سے جنسی زیادتی اور سزائے موت دینے کی اجازت دی؟
لیکن پھر، ہماری اپنی ”مہذب“ مثال کیا ہے؟ سی آئی اے کے تشدد مرکز ”بلیک سائٹ“ اور ایک ”مصری تفتیشی مرکز“ میں فرق ہی کیا ہے؟
لبنانی فوج اور ان کے سکیورٹی کے دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین لبنان کے سب سے زیادہ غیر فرقہ پرست اداروں میں شامل ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ اسی طرح برقرار رہیں اور اپنی ریاست کے اصل مفادات کے مطابق کام کریں، بجائے ان مفادات کے جوان کے سیاسی رہنماؤں نے کئی دہائیوں سے تشکیل دے رکھے ہیں۔
بلاشبہ لبنان میں گزشتہ چند دنوں میں پیش آنیوالے انتہائی غیر معمولی واقعات میں‘ صرف بے روزگاروں یاشہریوں کے واٹس ایپ کے استعمال پر ٹیکس کانفاذ (جو حکومت کے گھٹیاپن کو ظاہر کرتا ہے) کے غم و غصے کا اظہار نہیں ہے بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنوبی اور مشرقی لبنان کے شہریوں نے پہلی بار حزب اللہ پر تنقید اور مذمت کی۔
سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کو اچانک تمام مذاہب کی جانب سے احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام نے انہیں گھیر لیا اور پوچھا کہ انہوں نے لبنانی عوام کو غربت اور تکلیف سے کیوں نجات نہیں دلائی؟ کیا لبنانیوں کی زندگی اتنی ارزاں ہے کہ حفاظت کے قابل ہی نہیں اور شامی شہریوں کی زندگی بہت اہم ہے؟ جن کے لئے حزب اللہ اب تک کئی برسوں سے لڑتا رہا ہے اور مرتارہا ہے۔ انہوں نے یہ کام بڑی ہمت کے ساتھ کیا لیکن کیا یہ غریب لبنا نی(خواہ وہ شیعہ، سنی یا عیسائی ہو) حزب اللہ کی توجہ اور محبت کا مستحق نہیں؟
لبنان میں گزشتہ سات دنوں میں بلکہ گزشتہ 30 سال میں جو کچھ ہوا ہے اس میں نصراللہ پر ہونے والی تنقیدبے مثال، حیرت انگیز اور خاصی حیران کن تھی۔ اب کوئی سیاستدان لبنان میں لوگوں کے غم و غصے سے زیادہ دیر تک محفوظ رہنے کی توقع نہیں کرسکتا۔
اب ایک اہم سوال۔ پوری دنیا میں ہر مذہب کے سیاسی اشرافیہ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ لبنانی وزیر اعظم(سنی)، صدر میروانی یا پارلیمنٹ کے اسپیکر (شیعہ) ہوں۔ کسی بھی انداز میں ہو لیکن اسرائیل سمیت پورے مشرق وسطی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان کے پنجے عراق کی ریت، الجیریا کے پہاڑوں اور لیوانت کی سرزمین میں گڑے ہوئے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار ترک نہیں کرنا چاہتے۔
انہوں نے اپنی زیا دہ سے زیا دہ جائیدادیں خریدنے جیسی منفی عادت پر بھی پردہ ڈالنے کے بہانے ڈھونڈ رکھے ہیں۔ یہ اشرافیہ صرف ووٹ لینے کی خاطر ایسا ڈرامہ رچاتے ہیں کہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مل جل کرچلنا چاہتے ہیں۔ لبنان میں پچھلے سات دنوں میں بہت سارے مظاہرین نے کیا کہا؟ مظاہرین نے کہا کہ ہاں ہمیں ایک ایسی سیاسی اشرافیہ کا سامنا ہے جو اقتدارپر قابض ہے لیکن کم سے کم ہم ان کا مواخذہ ضرورکر سکتے ہیں۔ اشرافیہ سیاستدانوں کا واحد مقصد اس خطے میں اپنی سیاسی طاقت برقرار کھنااوراپنے ہم خیال اور پارٹی ممبران کی سرپرستی کرنا ہے لیکن اگر ہم آئندہ بھی کئی دہائیوں تک صرف اپنے فرقہ پرست رہنماؤں کو ووٹ دیتے رہے تو ہو سکتا ہے حالات موجودہ سے کہیں زیادہ گھمبیر ہوجائیں۔
لبنانی شہریوں کے مظاہروں کے دوران سب سے زیادہ قابلِ نفرت شخص لبنانی وزیر خارجہ جبران باسیل کو کہا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ عہدہ انہیں صرف صدر کے داماد ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ یہ ناانصافی آخر کیوں کی گئی؟ سعد حریری سابق وزیر اعظم، رفیق حریری کے بیٹے ہی کیوں دوبارہ وزیراعظم بنے ہیں؟ کیا یہ یونہی نسل درنسل چلتا رہے گا؟کیا اس ملک میں سیاست صرف جاگیردار کے گھر کی لونڈی رہے گی؟
عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے سابق وزیر اعظم پیری ٹروڈو کے بیٹے جسٹن ٹروڈو ہی کیوں کینیڈا کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان دونوں نے انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کیا، نہ کہ کسی ملی بھگت کے ذریعے۔ ان کے حصول اقتدارکا فیصلہ صرف ان کے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ہرگز نہیں کیا گیا ہے۔
لبنان میں زیادہ تر وزرا ایماندار ہیں۔ وزیر محنت، کیملی ابو سلیمان، جنہوں نے اپنے خلاف مظاہروں کی وجہ سے خود عہدے سے استعفیٰ دیاتھا، وہ ذاتی طورپر اتنے امیر تھے کہ انہوں نے تنخواہ لینے سے بھی انکار کردیا لیکن، جیسا کہ کل ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ اس نے صرف حمرو شاپنگ ڈسٹرکٹ بیروت میں نوکری سے نکالے جانے کے سبب مظاہروں میں شرکت کی۔ تعلیم میں انتہائی محنتی اور اعلیٰ پو زیشن حاصل کرنے کے باوجود آخر کیوں ایک سیاستدان کا بیٹا ہی کامیاب قراردیا جاتا ہے؟لیکن ایسے سوالات کے جوابات ہم سب کو معلوم ہیں۔
میں نے طویل عرصہ قبل کہا تھا کہ اگر آپ مذہبی ریاست تشکیل دیتے ہیں تو یہ مذہبی ریاست ہی رہے گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ عرب دنیا میں کتنے ہی صلیبی قلعے، رومن کھنڈرات اور عمدہ ہوٹلوں کے مالک ہیں، جدید ریاست بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسے غیر مذہبی بنانے کا فیصلہ کریں تاکہ کوئی بھی شخص وراثتی طورپر اقتدار پر مسلسل قابض نہ رہ سکے۔
لیکن اگر آپ لبنان کو غیر مذہبی بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو، اس کا وجود ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ مذہبی فرقہ واریت لبنان کی اولین شناخت ہے۔
تو ہم بالآخر اپنی اس تحریر کی پہلی بات پر پھر واپس آ گئے ہیں۔ آپ نفیس پوشش کی نشستوں والی مہنگی ترین رولز رائس کار میں بیٹھنے کا لطف تو اٹھا سکتے ہیں، لیکن اگر اس کے پہیے گول کی بجائے چوکور اور کونوں والے ہوں تو وہ کار آگے حرکت نہیں کرے گی۔ پس ثابت ہوا کہ لبنانی انقلاب کو محض دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عملی طورپر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔