راولاکوٹ(حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع پونچھ میں صدارتی آرڈیننس اور کالعدم قرار دی گئی عسکری تنظیموں کے خلاف احتجاج کرنے والے آزادی پسند اور انقلاب پسند سیاسی کارکنوں کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن جاری ہے۔ پولیس مختلف مقامات پر گرفتاریوں کے لیے چھاپے ما ر رہی ہے۔
سابق صدر نیشنل عوامی پارٹی سردار لیاقت حیات کو پیر کے روز گرفتار کر لیا گیا۔ ہجیرہ میں این ایس ایف کے سینئر رہنما ملک الیاس کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ این ایس ایف کے ہی ایک نوجوان رہنما کو ہفتہ کی شام گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہجیرہ میں دو نوجوانوں کو اس لیے حراست میں لے لیا گیا کہ ان کا بھائی احتجاج میں شریک تھا۔
پولیس نے راولاکوٹ میں آل پارٹیز اجلاس کی جگہ پر بھی چھاپہ مارا تاہم وہاں کوئی موجود نہ ہونے کی وجہ سے گرفتاری نہیں ہو سکی، بعد ازاں مختلف سیاسی رہنماؤں کے گھروں، دفاتر اور دیگر ٹھکانوں پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔
پولیس گردی، گرفتاریوں، صدارتی آرڈیننس اور کالعدم عسکری تنظیموں کی سرگرمیوں کے خلاف آج منگل کے روز دن ایک بجے راولاکوٹ میں دوبارہ احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سردار محمد صغیر خان کی زیر صدارت منعقدہ آزادی پسند اور انقلاب پسند سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں تمام سیاسی کارکنوں، جمہوریت پسند شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس احتجاج میں بھرپور شرکت کریں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 31اکتوبر کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں صدارتی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے ہر قسم کے احتجاج اور اجتماع کو ڈپٹی کمشنر کی پیشگی اجازت سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ ’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس2024ء‘ کے نام سے جاری اس آرڈیننس کے مطابق پاکستان کی سالمیت، نظریہ الحاق پاکستان وغیرہ کے خلاف کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کوئی غیر سیاسی گروہ سیاسی مطالبات پر احتجاج نہیں کر سکے گا۔ کسی بھی نوعیت کے اجتماع کے لیے ڈپٹی کمشنر سے 7روز قبل اجازت لینا ضروری ہوگا، جس کے لیے درخواست گزار کو احتجاج کی نوعیت، مطالبات، شرکت کرنے والے افراد کی تفصیل سمیت دیگر تفصیلات جمع کروانی لازمی ہونگی۔ احتجاج ڈپٹی کمشنر کی متعین کردہ جگہوں پر ہی ہو سکے گا۔ ڈپٹی کمشنر کسی بھی وقت احتجاج کی اجازت منسوخ کر سکتا ہے، کسی بھی علاقے کو ریڈ زون قرار دے کر وہاں ہر طرح کے احتجاج پر پابندی عائد کی جا سکے گی۔
اس آرڈیننس کی اجرائیگی اور گزشتہ عرصے میں کالعدم قرار دی گئی عسکری تنظیموں کے مسلح کارکنوں کے ہمراہ منعقد کیے گئے پروگرامات میں ترقی پسند، سیکولر اور قوم پرست کارکنوں پر کفر کے فتوے جاری کرنے اورقتل کرنے کے اعلانات کے خلاف سیاسی جماعتوں نے احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔
16نومبرکو ہونے والے اس احتجاج میں مطالبہ کیا گیا کہ صدارتی آرڈیننس کو فوری منسوخ کیا جائے اور کالعدم قرار دی گئی عسکری تنظیموں کے ذمہ داران اور دیگر مذہبی انتہاء پسندوں کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ کے دوران چلنے والی عوامی حقوق تحریک کے دوران اس خطے کے شہریوں نے جہاں نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل دیا، بلکہ وہ رد عمل نوآبادیاتی جبر کے خاتمے کے مطالبات کی صورت کھل کر سامنے آیا۔ اس خطے کے لاکھوں افراد نے آزادی اور انقلاب کے نعروں کو اپنا لیا تھا، جس کے خلاف ریاست نے منظم حکمت عملی کے تحت پہلے اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد شہریوں کو آزادی اور انقلاب کا درس دینے والے رہنماؤں کے خلاف ایک منظم حکمت عملی مرتب کی جانی شروع کر دی گئی۔ صدارتی آرڈیننس کا اجراء اور مذہبی انتہاء پسندی کا استعمال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
تاہم جبر اور استبداد کے ان ہتھکنڈوں کے ذریعے سے آزادی اور انقلاب کی آوازوں کو دبانہ ممکن نہیں ہے۔ بوکھلاہٹ کا شکار ریاست جس قدر ریاستی جبر اور تشدد میں اضافہ کرتی جائے گی، تحریک اور مزاحمت بھی اسی شدت سے اظہار کرتی رہے گی۔ جموں کشمیر میں نوآبادیاتی جبر کے خلاف ابھرنے والی مزاحمت اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔