احمد فراز
کس سے ڈرتے ہو کہ سب لوگ تمہاری ہی طرح
ایک سے ہیں وہی آنکھیں وہی چہرے وہی دل
کس پہ شک کرتے ہو جتنے بھی مسافر ہیں یہاں
ایک ہی سب کا قبیلہ وہی پیکر وہی گل
ہم تو وہ تھے کہ محبت تھا وطیرہ جن کا
پیار سے ملتا تو دشمن کے بھی ہو جاتے تھے
اس توقع پہ کہ شاید کوئی مہماں آ جائے
گھر کے دروازے کھلے چھوڑ کے سو جاتے تھے
ہم تو آئے تھے کہ دیکھیں گے تمہارے قریے
وہ در و بام کہ تاریخ کے صورت گر ہیں
وہ ارینے وہ مساجد وہ کلیسا وہ محل
اور وہ لوگ جو ہر نقش سے افضل تر ہیں
روم کے بت ہوں کہ پیرس کی ہو مونالیزا
کیٹس کی قبر ہو یا تربت فردوسی ہو
قرطبہ ہو کہ اجنتا کہ موہنجوداڑو
دیدہئ شوق نہ محروم نظر بوسی ہو
کس نے دنیا کو بھی دولت کی طرح بانٹا ہے
کس نے تقسیم کئے ہیں یہ اثاثے سارے
کس نے دیوار تفاوت کی اٹھائی لوگو
کیوں سمندر کے کنارے پہ ہیں پیاسے سارے