اکبر زیدی
(یہ مضمون 2014میں ڈان نے شائع کیا۔ اس کا متن آج بھی اتنا ہی اہم ہے، جتنا 10سال پہلے تھا۔ اس لیے اسے دوبارہ اردو ترجمے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر۔ ترجمہ: فاروق سلہریا)
بلاشتہ یہ ایک لایعنی سی بات ہے۔ تاج محل کیونکر ’پاکستانی‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ تاج محل کی تعمیر کے 400سال بعد اس کی قومیت پر بحث کی توقع ذرا عبث سی بات ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
وائے قسمت! پاکستان کی ایک بہترین یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ طلبہ کی ایک کلاس میں پاکستانی تاریخ پر ہونے والے ایک سیشن میں عین اس موضوع پر ایک گرما گرم بحث ہوئی۔ کچھ طلبہ کا خیال تھا کہ تاج محل پاکستانی تاریخ کا حصہ ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ تاج محل ’پاکستانی‘ ہے۔
انڈر گریجویٹ ڈگری میں داخلے سے پہلے انہوں نے مطالعہ پاکستان کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ اس بات کے پیشِ نظر کہ پاکستانی تاریخ انتہائی متنازع انداز میں بیان کی جاتی ہے اور یہ کہ تاریخِ پاکستان متنوع انداز میں تشکیل دی جا سکتی ہے… اسی لیے عین ممکن ہے کہ پاکستانی تاریخ کے حوالے سے متحارب بیانیے تشکیل دیے جائیں۔ اس پس منظر میں یہ دعویٰ بھی ممکن ہے کہ تاج محل ’پاکستانی‘ہے۔
تاریخ پاکستان ایک متنازع موضوع رہا ہے۔ وہ یوں کہ مختلف نوع کی سوچ رکھنے والوں نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق پاکستانی تاریخ کی تعریف مقرر کی ہے۔ اسی کی روشنی میں تصورِ پاکستان کی تشریح کی گئی ہے۔
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی بعض تاریخ دانوں نے یہ تشریح کی ہے کہ پاکستان 712ء میں تب ہی قائم ہو گیا تھا، جب عرب فاتحین موجودہ پاکستان کی سرزمین پر اترے۔ اس واقعہ کو غلط طور پر مسلمانوں کے جنوبی ایشیا کہلانے والے خطے کے ساتھ پہلے رابطے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بہر حال اس کہانی کے نتیجے میں اس سرکاری بیانئے کی تشکیل ممکن ہو جاتی ہے کہ مسلم’شناخت‘ اور ’شعور‘ کا آغاز اس واقعہ سے ہوا۔ دیگر تفسیروں کے مطابق سلطنت دہلی، مغلیہ خاندان، یا انیسویں صدی کے واقعات اور 1857ء کی جنگ کے نتیجے میں علیحدہ مسلم شناخت کا جنم ہوا، جس نے مسلم ’علیحدگی پسندی‘ کو جنم دیا اور یوں پاکستان وجود میں آیا۔
پاکستان کب وجود میں آیا؟ اس سوال کا جواب اس بیانئے میں تلاش کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان بنانا پڑا۔
سو اگر پاکستانی تاریخ کا مطلب ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ ہے۔۔۔۔ اور اگر محمد بن قاسم کو ’پہلا پاکستانی‘ قرار دیا جا سکتا ہے تو تاج محل بھی پاکستانی ہے۔ یوں تاریخِ پاکستان اور پاکستانی لوگوں کی تاریخ دو متحارب بیان بن جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’پاکستانی‘ تاریخ کے نتیجے میں پاکستان(مغربی و مشرقی) یا باقی ماندہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی تاریخ پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ موہنجوداڑو، ہڑپہ اور پاکستان کے باسیوں کی تاریخ پر شمالی ہندوستان کی مسلم تاریخ غلبہ پا جاتی ہے۔ اس غالب تاریخ میں بھی بادشاہوں اور درباروں کا ذکر ہی ملتا ہے۔ جب 20ویں صدی میں ہندوستان پر سیاست حاوی ہوگئی تو پاکستان کی’تحریک آزادی‘۔۔۔۔۔۔برطانوی استعمار سے تمام اہل ہندوستان کی آزادی کی بجائے۔۔۔۔۔ مندرجہ بالا بیانئے کو اس طرح ترتیب دیتی ہے کہ یہ بیانیہ ایک مقصد پورا کرے نہ کہ وہ وجوہات بیان کرے، جن کے نتیجے میں یہ ’تحریک آزادی‘ پروان چڑھی۔
پاکستانی تاریخ کے نام پر جو تھوڑا بہت لکھا گیا ہے، زیادہ تر قصیدہ نگاری اور مبالغہ آمیزی پر مبنی ہے۔ اس تاریخ نویسی میں پراجیکٹ پاکستان کی کامیابی میں مسلمانوں کی ہی توانائی شامل تھی، جس کے نتیجے میں اگست1947 کے واقعات رونما ہوئے۔
کردار، بالخصوص ہیروز تقریباً ہمیشہ مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ طلبہ کو 30کروڑ ہندوستانیوں کی کلونیل ازم سے آزادی کے لیے نہرو، گاندھی، ایمبیدکر، پٹیل یا سبھاش چند بوس کے کردار بارے شائد ہی بتایا جاتا ہے۔
عام طور پر ان مسلمان مردوں کا ہی ذکر ملتا ہے، جنہوں نے مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس کہانی میں برطانوی حکمران کسی زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں یہی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تقسیم بہت بری طرح منظم کی اور بہت سے مسلم اکثریتی اضلاع، جن پر پاکستان کا حق تھا،پاکستان کو نہیں دیے۔
کچھ عرصہ قبل تاریخ دان فیصل دیوجی کی کتاب ’مسلم صہیون‘ شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں فیصل دیوجی نے بعض بہت عمدہ اور نفیس نکات اٹھائے ہیں۔ پاکستانی تاریخ نویسی کے نام پر ہونے والی سلیس قصہ گوئی کے برعکس اس کتاب میں بے شمار پیچیدگیوں اور ابہاموں کا تذکرہ ملتا ہے۔
جن نظریات سے قیام پاکستان کا جواز فراہم کیا جاتا ہے، فیصل دیو جی کی کتاب میں اِن کی متنوع اور پر نزاکت تفہیم پیش کی گئی ہے۔ گو فیصل دیوجی کے بعض خیالات سے اتفاق ممکن نہیں، مگر ان کا یہ کہنا کہ پاکستان کی تاریخ اِس کی سرحدوں سے باہر موجود ہے، اس حوالے سے اہم ہے جس پر ہم بحث کر رہے ہیں۔ یعنی جب پاکستانی تاریخ گھڑی جاتی ہے تو بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض لوگ تاج محل کو پاکستانی قرار دینے لگتے ہیں۔
مزید براں، اگر یہ دعویٰ درست تسلیم کر لیا جائے کہ پاکستان کی تاریخ اس کی ’سرحدو ں سے ماورا‘ ہے(درحقیقت تنقیدی حوالے سے یہ دعویٰ ایسا غلط بھی نہیں) تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تاریخ کے اس غالب نظریے کے مطابق پاکستان کی اپنی کوئی تاریخ نہیں۔ گویا نام نہاد ’تحریک آزادی‘ دوسرے خطے میں لڑی گئی، نہ کہ اس ملک میں جہاں پاکستان کیباسیوں کے آباؤ اجداد صدیوں سے آباد تھے۔
اینٹ گارے۔۔۔۔ حتیٰ کہ تاج محل۔۔۔ کو قومیت کا درجہ دینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کئی طرح کے علمی مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود تاریخِ پاکستان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ایک ایسی دھرتی جو اایسے سوال کا حل تلاش کر رہی ہے، اسے کوئی جواب اس نوع کی تاریخ نویسی سے نہیں ملتا۔
اس سوال کا کوئی کس طرح کا جواب تلاش کرتا ہے، اس کا انحصار مختلف باتوں پر ہے۔ بہر صورت ہر محقق کو نظریاتی اور جغرافیائی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑے گا۔
اگر تو پاکستان نظریاتی بنیادوں پر متصور کیا جائے تو پھر ضرورت محض اس بات کا تعین کرنے کی ہے کہ پاکستا ن کب وجود میں آیا۔ یہ آسان کام تو نہیں مگر اس بات کا تعین کرنے کے لیے پھر خود کو ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ یا جنوبی ایشیا میں اسلام کی تاریخ تک محدود رکھنا ہوگا۔
اگر پاکستان کو جغرافیائی بنیادوں پر تصور کیا جائے تو یہاں کے باسیوں اور پاکستانی دھرتی کی تاریخ بالکل مختلف زاویے سے پڑھائی اور سمجھی جائے گی۔
(بشکریہ: ڈان)