اکبر زیدی
پچھلے چند ہفتوں سے پاکستانی اشرافیہ اس فکر میں مشغول رہی ہے کہ ڈالر کے مقابلے پر روپے کی قیمت کیا ہے۔ جب سے ڈالر کے مقابلے پر روپے کی قدر میں زبردست کمی واقعی ہوئی ہے، ان کے خیال میں سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔
پاکستانی اشرافیہ کو ڈالر کی قیمت کی جو اتنی فکر لگی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مصنوعات وہ خریدتے ہیں، جہاں سے خریدتے ہیں، جہاں وہ لوگ چھٹیاں گزارتے ہیں، ان کے جواثاثے ہیں، وہاں سب ڈالر میں طے ہوتا ہے یا کم از کم ان کی خواہش ہے کہ ایسا ہو۔
بیرون ملک چھٹیاں اور شاپنگ، ہوائی ٹکٹ، بچوں کی تعلیم، اپنے پیاروں کے اخراجات کے لئے بھیجی جانے والی رقم، اس طرح کے بہت سے دیگر مشاغل کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ڈالر کتنا سستا مل رہا ہے۔ ان لوگوں کی نظر میں معیشیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ ڈالر کا ریٹ کیا ہے۔
شام سات سے گیارہ بجے تک ٹیلی ویژن پر ہونے والے نام نہاد ٹاک شوز…جن کی روح رواں ایسے اینکر پرسنز ہوتے ہیں جن کو معیشیت کی الف ب کا بھی علم نہیں ہوتا…کو بھی زور شور سے ڈالر ریٹ کی فکر لاحق ہے۔ بعض بہت شہرہ آفاق اینکر پرسنز اور ان کے بلا تواتر آنے والے تجزیہ کاروں کو بلاشبہ سیاست کی بہت زیادہ سمجھ بوجھ ہے۔ عدلیہ کے نسبتاً پیچیدہ اور متنازعہ فیصلوں بارے بھی یہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ فوج کی سیاسی چالوں بارے تو یہ خوب جانتے ہیں…مگر معیشت ان کے بس کی بات نہیں۔ ہر انسان بہر حال ہر موضوع پر عبور نہیں رکھ سکتا۔
حیرت لیکن اس بات پر ہے کہ جس تکنیکی موضوع بارے انہیں کسی بات کا علم نہیں، اس پر بھی وہ اپنی رائے دیتے ہوئے اپنی جہالت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ یہی حال ان ٹاک شوز میں شامل سیاسی مہمانوں کا ہوتا ہے جنہیں معیشت بارے تو کچھ معلوم نہیں ہوتا مگر سیاسی حریفوں کو پچھاڑنے کے لئے بیان داغ رہے ہوتے ہیں۔ کسی نے شائددرست کہا تھا: اس دور میں ہر شخص ماہر معیشت ہے، بالخصوص وہ لوگ جنہیں معیشت کا سرے سے ہی علم نہیں۔
ان ٹاک شوز میں گذشتہ چند مہینوں سے ڈالر کے مقابلے پر روپے کی قدر ہی اہم ترین موضوع بنا ہوا ہے۔ اگر کبھی کسی ماہر معیشت کو بلایا بھی تو یہ پیش گوئی کرنے کے لئے کہ اگلے چند دن میں ڈالر کا ریٹ کیا ہو گا۔ گویا ہم معیشت دانوں کو جیسے علم ہو۔
یہاں مراد یہ نہیں ہے کہ ڈالر پاکستانی معیشت کے لئے اہم نہیں۔ ڈالر بلا شبہ اہم ہے۔ خاص کر اگر پاکستان کے بے تحاشہ بیرونی قرضوں اور تجارتی خسارے کو مد نظر رکھا جائے تو ڈالر کی قیمت پاکستانی معیشت کے لئے بہت اہم ہے مگر معیشیت کے حوالے سے یہ محض ایک اہم عشاریہ ہے۔ معیشت کی حالت بارے یہ سب سے اہم عشاریہ نہیں ہے۔ بہت سے دیگر عناصر بھی معیشت کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
ایک متحرک معیشت جس کا نصب العین دولت کی تقسیم ہو، اس پر روپے کی قدر تبادلہ کا اتنا اثر نہیں پڑے گا۔
ہم تیل کی بڑی مقدار درآمد کرتے ہیں۔ بنیادی خوراک بھی باہر سے منگوائی جا رہی ہے۔ اسی طرح صنعتی مصنوعات و تعیشات بھی درآمد ہو رہے ہیں۔ اس لئے ڈالر کی قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اگر مختصر وقفے کے دوران ڈالر کی قیمت دوگنا ہو جائے تو اس کا فوری طور پر اثر یہ ہوتا ہے کہ درآمدی اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں۔ خاص کر پیٹرول کی قیمت بڑھ جاتی ہے جیسا کہ حالیہ دنوں میں ہوا۔ اس کا اثر دیگر مصنوعات پر بھی پڑتا ہے۔ خاص کر بجلی کا بل اور ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔
معاشی اور پبلک ایکشن (یا بے عملی) کے معاشی نتائج روپے اور ڈالر کی قیمت سے کہیں زیادہ دور رس ہو سکتے ہیں۔ بہت سے فیصلے لوگوں کی زندگی کو ڈالر کی قیمت کی نسبت کہیں زیادہ متاثر کر سکتے ہیں۔
معیشت کا ایک اہم ترین پہلو عدم مساوات ہے جو عام طور پر نہ تو ان ادارتی صفحات پر زیر بحث آتا ہے نہ ہی ٹاک شوز میں اس پر بات کی جاتی ہے۔ نیو لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کے نتیجے میں کس طرح سے عدم مساوات بڑھ رہی ہے، اس بارے کوئی بات نہیں کرتا۔
اگر ہماری معیشت میں وسائل کی تقسیم اور عام لوگوں کو مواقع فراہم کرنا بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے تو ڈالر کی قیمت اتنی اہمیت اختیار نہ کرتی۔ پھر اہمیت اس بات کی ہوتی کہ روزگار کے کتنے مواقع پیدا ہوئے، مفت تعلیم اور صحت کی سہلوتوں تک رسائی کے برابر مواقع کس حد تک پیدا ہوئے۔ ایک متحرک اور ترقی کرتی ہوئی معیشت جس کا نصب العین وسائل کی تقسیم ہوتا، اس پر ایکسچینج ریٹ کا اتنا اثر نہ ہوتا۔ پیداوار اور وسائل کی تقسیم بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے۔
ایک ایسی معیشت جوڈالر کے سحر میں گرفتار نہ ہو، اس کے لئے ایک اور اہم عشاریہ صنفی برابری ہوتا۔ جب اشرافیہ اپنی ڈنر پارٹیوں یا اینکر پرسنز ٹاک شوز میں ڈالر کا ماتم کر رہے تھے، عین اس وقت موجودہ سال کی’گلوبل جینڈر رپورٹ‘ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں صنفی برابری کے حوالے سے دوسرا بد ترین ملک ہے۔ ڈالر ریٹ سے کہیں اہم یہ خبر تھی۔ اس خبر پر چند ادارئے ضرور شائع ہوئے لیکن حسب معمول خواتین کا سوال عوامی بیانئے سے خارج کر دیا گیا کیونکہ ہر کس و ناکس کو ڈالر کے ریٹ کی فکر پڑی تھی۔
اگر ڈالر کا موضوع نہ بھی زیر بحث ہوتا تو بھی عوامی سطح پر صنفی برابری بارے اس رپورٹ پر کسی نے کان نہیں دھرنا تھا۔ اس کے باوجود معیشت کے لئے صنفی برابری چھٹیوں کے لئے کم خرچ پر بیرون ملک جانے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
جب ڈالر ریٹ کم ہو گا…فی الحال ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں،وقتی طور پر کمی آئے گی…معیشت کو لاحق مسلسل بیماریوں کا کوئی تذکرہ نہیں کرے گا۔ اشرافیہ پر بھاری ٹیکس، صنفی برابری، وسائل کی منصفانہ تقسیم ایسے موضوعات پر کون بات کرنا چاہتا ہے؟ ڈالر ریٹ پر ادارتی صفحات پر مضامین لکھنا یا ٹاک شوز میں بحث کر زیادہ سیکسی ہے۔
ذرا ایسے کسی ٹاک شوز کا تصور کیجئے جس میں یہ بحث ہو رہی ہو کی سب کے پاس برابر حقوق ہونے چاہئیں، غریبوں کو بے نظیر انکم سپورٹ سے ہٹ کر بھی مواقع ملنے چاہئیں۔
جتنی دیر تک ہم معیشت کو لاحق بڑے مرضوں کا علاج کرنے سے کتراتے رہیں گے، تب تک ہماری معیشت کا شمار دنیا کی بدترین معیشتوں میں ہوتا رہے گا اور یہاں دنیا کی تیسری سب سے بڑی افراط زر کی شرح رہے گی۔ جب ہم اپنی معیشت کو بہتر طریقے سے چلانے لگیں گے، شہریوں کے معاشی حقوق پر توجہ دیں گے، انصاف فراہم کریں گے، اُن امیر لوگوں پر ٹیکس لگائیں گے جو ہر وقت ٹیکس بچانے کے چکر میں ہوتے ہیں،ڈالر کی قیمت اہم نہیں رہے گی۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا، تب تک اشرافیہ کی ڈنر پارٹیوں میں اور ٹاک شوز کا سب سے بڑا موضوع ڈالر ریٹ ہی رہے گا۔
بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: فاروق سلہریا