فاروق طارق
الکرم پاکستان کا ایک مشہور ٹیکسٹائل برانڈ ہے۔ جو اپنے اشتہاروں میں عورت کو بااختیار کرنے کا عزم ظاہر کرتا رہتا ہے۔
پچھلے ہفتے الکرم کی ایک سینئر سیلز آفیسر صنوبر علی نے الزام لگایا ہے کہ الکرم سٹوڈیو کے سیلز کے شعبے کے سربراہ محمد علی مفتی نے انہیں جنسی طور ہراساں کیا ہے۔ اب ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ جنسی ہراسانی کے الزام کو واپس لے لیں۔ اور انہیں نوکری سے بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا واقعے میں دونوں پارٹیوں کا موقف جاننا اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دینا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہراسانی کا سامنابہت سی خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ مردانہ تعصب سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن اس کے خلاف عورتوں کی تنظیمیں آج کل کافی متحرک نظر آتی ہیں۔
اسی قسم کے الزامات گلوکار و اداکار علی ظفر پر گلوکارہ میشا شفیع نے بھی عائد کیے ہیں اور دونوں نے عدالتوں میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بھی درج کیے ہوئے ہیں۔
اس سال عورتوں کے عالمی دن کے بعد سے پاکستان میں جنسی ہراسانی کا کافی ذکر ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر ’می ٹو‘ کی مہم بھی کافی زور پکڑتی نظر آتی ہے۔
انتخابات سے قبل سابقہ ایم این اے عائشہ گلالئی نے عمران خان پر نامناسب پیغامات بھیجنے کے الزامات لگائے تھے۔ عائشہ پر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ 2013ء میں بھیجے گئے پیغامات پر اب کیوں شور مچا رہی ہیں وغیرہ۔
اس تحریر میں جنسی ہراسانی اور بالخصوص پاکستان میں اس بارے پائی جانے والی غلط فہمیوں کی بات کی جائے گی۔
جنسی ہراسانی سے مراد کسی مرد کی جانب سے عورت کوایسی جنسی ترغیب دینے کی کوشش ہے جسے عورت ناپسند کرے۔ یعنی زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنا اور ایسے دیگر اقدامات جس میں جسمانی طور پہ چھونا، غیرضروری رابطے کی کوشش کرنا اور فقرے کسنا وغیرہ شامل ہیں۔
ایسی کیفیات کا شکار فیکٹریوں، دکانوں، سیاسی پارٹیوں، تعلیمی اداروں یا ہسپتالوں وغیرہ میں کام کرنیوالی خواتین اکثر ہوتی ہیں۔
عورت اگر جنسی ترغیبات دینے والوں کو بالواسطہ یا براہِ راست طور پہ رد کر دے تو ماحول کو بالعموم ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ اُس کے لئے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی جنسی ہراسانی کے زمرے میں شامل ہے۔ عورت کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر اس وقت نشانہ بنانا جب وہ آپ کی جنسی ترغیبات سے متفق نہ ہو‘ یہ بھی جنسی ہراسانی ہی ہے۔
مثال کے طور پر جنسی تعلق قائم کرنے کی شرط پہ طالبات کو امتحان پاس کرانے کی گارنٹی دینا۔ یا سیاسی جماعت میں انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ یا کسی پارٹی عہدے وغیرہ کا لالچ دینا۔ پروموشن کے لئے ایسی شرائط لگانا۔ اور مذکورہ بالا اور ان جیسی تمام صورتوں میں انکار کی صورت میں خواتین کو تنگ کرنا اور ان کے راستے میں روڑے اٹکانا جنسی ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔
جنسی ہراسانی میں درج ذیل اقدامات بھی شامل ہیں۔
* عورتوں بارے گندے/ فحش مذاق، فقرے اور طنز
* ناپسندیدہ جنسی تحریریں
* جنسی افواہیں پھیلانا
* جنسی تعلق قائم کرنے کے لئے شادی کی پیشکش
* عورت کی جنسی باتیں دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا
* جنسی تصاویر یاخاکے وغیرہ بنانا‘ اس نیت سے کہ کوئی بدنام ہو
* ناپسندیدہ جنسی پیغامات لکھنا جس میں الیکٹرونک پیغامات بھی شامل ہیں (ای میل، ایس ایم ایس، واٹس ایپ وغیرہ)
* تعلق قائم کرنے کے لئے دباؤ ڈالنا‘ ملنے پر مجبور کرنا وغیرہ
ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی عورت جنسی ہراسانی کی شکایت کرتی ہے اسے فوراً نفرت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لئے عورت ہزار بار سوچتی ہے کہ وہ یہ بات کہے یا نہ کہے۔ اس میں اکثر خاصا وقت بھی لگ جاتا ہے۔
پاکستان جیسے سماجوں میں جنسی ہراسانی کی شکایت کرنا ایک انتہائی دلیرانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے سوال ہی یہ کیا جاتا ہے کہ ”پہلے کیوں نہیں کہا؟“ یا ”موقع پہ بات کیوں نہ کی!“
حالانکہ جنسی ہراسانی کی شکایت کسی مخصوص وقت میں کرنا لازم نہیں ہے۔ یہ جب بھی کی جائے اس کی تحقیقات کرنا ضروری ہے۔
عورتوں کو ہراساں بالعموم ایسے طاقتور لوگ کرتے ہیں جو کسی ادارے میں فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ وہ مالک سے لے کے سپروائزر تک اور پارٹی صدر سے لے کے یونٹ عہدیدار تک ہوسکتا ہے۔
سوشلسٹ ہر صورت میں جنسی ہراسانی کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ عورتوں کے سماجی اور معاشی استحصال کا معاملہ ہے۔ اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔
جنسی ہراسانی کے موجودہ قانون کا موثر اطلاق ہونا چاہیے۔ ایسے کیسوں کی تعداد بہت کم ہے جن کی کسی خاتون محتسب کے سامنے سماعت ہو رہی ہو۔ حالانکہ عورتوں کی ہراسانی کے کئی واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس قانون میں ترامیم کی جائیں اور اس میں جنسی استحصال اور جنسی رشوت جیسی اصطلاحات کو شامل کیا جائے۔ جیسا کہ بنگلہ دیش کے قانون میں ہے۔