فاروق طارق
تحریک انصاف حکومت نے ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں 2.33 روپے فی یونٹ کا اضافہ کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لئے تاجروں کو ٹیکس کی جو اربوں روپے کی چھوٹ دی گئی تھی وہ بجلی کی قیمتوں میں اس اضافے سے پوری کر لی جائے گی۔ لیکن بوجھ محنت کش عوام کو اٹھانا پڑے گا۔
اس سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں چوتھی بار اضافہ کیا گیا ہے۔ پہلی دفعہ یکم جنوری، دوسری دفعہ چودہ جون، تیسری دفعہ یکم اکتوبر اور اب 5 نومبر کو یہ اضافہ کر کے کم از کم چار سو ارب روپے کا مزید بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لئے نام نہاد ماہرین جو جواز بتاتے ہیں، ان میں روپے کی قیمت میں کمی، ٹرانسمیشن اور تقسیم کاری میں نقصانات، بجلی کا کم استعمال اور ٹیرف میں قانونی اور غیر قانونی اضافے کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سب حیلے بہانے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ جات لینے کی ایک اہم شرط بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جانا تھا، جو اب وقفے وقفے سے کیا جا رہا ہے۔
یکم اکتوبر کو جب بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا گیا تو وزیر بجلی عمر ایوب نے ایک عجیب منطق دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے یہ اعلیٰ فرمان جاری کیا کہ ن لیگ نے اپنے دور کے آخری اٹھارہ ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کر کے ملک کو جو 226 ارب روپے کا نقصان پہنچایا اسے اب پورا کرنا ضروری ہے۔
اگرچہ مسلم لیگی دور بھی کوئی مثالی دور نہ تھا۔ مسلم لیگی دور میں 28000 میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی تھی۔ مگر اس میں امپورٹڈ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی بھی ہے اور ماحول کی تباہی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ مگر انکو اس بات کے طعنے دینا کہ انہوں نے اپنے دور میں بجلی مہنگی کیوں نہ کی، عمران خان حکومت کے سیاسی دیوالیہ پن کی انتہا کا اظہار ہے۔
موجودہ تحریک انصاف حکومت نیو لبرل پالیسیوں پر تیزی سے عمل کر رہی ہے۔ وہ بجلی اور گیس کے ساتھ ساتھ، پٹرول کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ کر رہی ہے اور سینکڑوں اداروں کی نجکاری کے درپے ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی کا نقصان بھی عوام پر ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر کیا جا رہاہے۔ گویا ہر طریقے سے عوام کی جیبوں میں ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔
مار کھاتا ہے تو محنت کش طبقہ، جو طبقاتی طور پر اتنا منظم نہیں کہ کھل کر جدوجہد کرے۔ وہ حکومت کے خلاف ہے مگر جدوجہد کے زینے پر نہیں۔ لیکن حالات سدا ایسے نہیں رہیں گیں محنت کش طبقہ ابھی چپ ضرور ہے لیکن وہ اپنے تجربات سے سیکھ بھی رہا ہے۔
لاہور لیفٹ فرنٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی شدید مذمت کرتا ہے اورمطالبہ کرتا ہے کہ اسے فوری طور پر واپس لیا جائے۔