عمران کامیانہ
آئی ایم ایف کے پروگرام میں داخل ہوتے وقت ایک امکان یہ موجود تھا کہ کسی بڑی مزاحمت کی عدم موجودگی میں موجودہ سیٹ اپ کے تحت معاشی بحران کا بوجھ عوام پر منتقل کر کے اگلے دو سے تین سالوں میں میکرو اکنامک اعشاریوں میں کچھ استحکام حاصل کر لیا جائے گا۔ لیکن معیشت کے اعداد و شمار جس سنگین صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں اس کے پیش نظر ایسے امکانات مخدوش ہوتے جا ر ہے ہیں۔
پچھلے جمعے سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے صرف ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 7.6 ہزار ارب روپے (31.3 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد مجموعی حکومتی قرضہ 31 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
گزشتہ صرف ایک سال کے دوران قرضوں میں ہونے والا اضافہ مسلم لیگ (ن) کے سارے دورِ حکومت میں لیے گئے مجموعی قرضے کے 71 فیصد کے مساوی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی حکومت نے قرضوں میں اتنا اضافہ اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران بھی نہیں کیا تھا (پیپلز پارٹی دورِ حکومت میں قرضوں میں 6 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا)۔
قرضوں میں اس تیز اضافے کی وجوہات میں مطلوبہ ٹیکس کے حصول میں ناکامی، پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر بے دریغ اخراجات اور روپے کی قدر میں تیز کمی شامل ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس محصولات میں 580 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا رہا ہے۔ جبکہ حکومتی آمدن کا تقریباً 70 فیصد صرف پرانے قرضوں اور دفاعی اخراجات کی نذر ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح ڈالر جو جون 2018ء میں 121 روپے کا تھا اس وقت 160 روپے سے زائد کا ہو چکا ہے جس سے بیرونی قرضوں کا بوجھ تیزی سے بڑھا ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ بالا قرضوں میں گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کے ذمے واجب الادا رقوم (Liabilities)میں ہونے والا اضافہ ابھی شامل نہیں ہے۔
قرضوں میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی شرح سے یہ اضافہ ایک ایسی حکومت کے تحت ہو رہا ہے جو پچھلی حکومتوں کے قرضوں کی تحقیقات کے لئے کمیشن بناتی پھر رہی ہے۔ پچھلے دس سال کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں 18 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت جس رفتار سے قرض لے رہی ہے اس کے پیش نظر اگلے پانچ سالوں میں حکومتی قرضے دوگنا ہوسکتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کے بیرونی قرضوں میں 41.8 فیصد یا 3.3 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد مجموعی بیرونی قرضے 11 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے۔
اس بیرونی قرضے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے لیے گئے 5 ارب ڈالر کے قرضے شامل نہیں ہیں۔ جو وفاقی حکومت کی بجائے مرکزی بینک کے ذمے واجب الادا ہیں۔
داخلی قرضوں میں ایک سال کے دوران 26.2 فیصد یا 4.3 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ قرضے اب 20.7ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں۔
آئی ایم ایف کے کہنے پر نوٹوں کی چھپائی کی رفتار کم کی گئی ہے جبکہ قلیل المدتی قرضوں کو طویل المدتی قرضوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جاری مالی سال کے دوران مالیاتی خسارے کا ہدف 3137 ارب روپے ہے۔ یعنی قرضوں میں تقریباً اتنا اضافہ ہر حال میں ناگزیر ہے۔ لیکن ایف بی آر کے ٹیکسوں کی آمدن کا ہدف، جو 5555 ارب روپے ہے، بیشتر معاشی ماہرین کے نزدیک سراسر غیر حقیقی ہے۔ یوں مالیاتی خسارہ کہیں زیادہ بڑھ سکتا ہے جس سے گزشتہ مالی سال کی طرح قرضوں میں بڑے پیمانے پہ مزید اضافہ ہو گا۔ اسی طرح روپے کی قدر میں مزید گراوٹ سے بھی بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو گا۔
بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی کی شرح بھی سرکاری ہدف، جو 13 فیصد ہے، سے کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق جاری مالی سال کے دوران معیشت کی شرح نمو صرف 2.4 فیصد رہے گی۔ بیک وقت بلند افراطِ زر اور انتہائی کم شرح نمو کیساتھ پاکستانی معیشت ’سٹیگفلیشن‘ کی کیفیت کا شکار ہو چکی ہے جس میں بیروزگاری اور مہنگائی دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت آنے والے کئی سالوں میں عوام کے لئے کسی بہتری و آسودگی کا کوئی امکان نہیں ہے۔