اشرف لون
اگر یہ کہا جائے کہ یہ عہد سعادت حسن منٹو کا عہد ہے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔آئے دن جس طرح معصوم لوگ مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اس عہد کوایک منٹو کی بہت ضرورت ہے۔اتنی ضرورت جتنی شائد 1947ء میں بھارت یا پاکستان کو بھی نہ تھی۔وہی منٹو جو نہ صرف اردو کا بلکہ دنیائے ادب کا بڑا افسانہ نگار ہے،جس نے اپنے افسانوں میں نہ صرف مظلوم عورتوں کی کہانیاں بیان کی ہیں بلکہ ہندوستان کی تقسیم اور فساد پر شاہکار افسانے لکھے،اور ان افسانوں میں انسانی بہیمیت اور درندگی کے ہزارہا چہرے نقش کیے۔وہی منٹو جس نے خود اپنی آنکھوں کے سامنے ا نسانیت کو شرمسار ہوتے دیکھا اور پھر اس شرمسار ہوتی ہوئی انسانیت کو نہ صرف اپنی کہانیوں میں قلمبند کیا بلکہ اس کی نکتہ چینی بھی کی۔منٹو تو آج زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور پہلے سے زیادہ معنویت رکھتی ہیں۔
مذہب کے نام پر لوگوں کا قتل عام اب معمول بن گیا ہے۔اب معاشرے کے ہر فرد کو کسی دوسرے فرد کا مذہب ناقابل قبول لگتا ہے اور وہ اس کو مٹانے پر تُل جاتا ہے۔مذہبی انتہا پسندی نے اب پہلے سے زیادہ بھیانک شکل اختیار کر لی ہے۔یہ شکل دن بہ دن اور بھیانک ہوتی جارہی ہے۔فریقوں کا قتل اب قتل یا جرم نہیں بلکہ ثواب کا کام لگنے لگا ہے۔مذہب کی تعلیم کی تشریح کے اب نئے طریقوں نے جنم لیا ہے، جس کے مطابق مختلف مذاہب کے افراد ایک دوسرے کے یقینی دشمن قرار پاتے ہیں۔اب جس کے پاس طاقت ہے وہ اپنے مذہب کو اعلیٰ مانتا ہے اور دوسرے مذہب کو نیچا۔بھارت،پاکستان، بنگلہ دیش، عراق، امریکہ، فرانس میں اب یہی ہورہا ہے۔مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا قتل ہورہا ہے۔جہاں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش میں مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کا ایک الگ رخ ہے جس میں اعتدال پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں،وہیں امریکہ، فرانس، اور دوسرے یورپی ممالک میں مذہب کی توہین کرکے اس انتہاپسندی کو مزید ہوا دی جارہی ہے۔
منٹو نے فسادات اور تقسیم پر بڑے کامیاب افسانے لکھے ہیں۔انہوں نے اپنی کہانیوں میں فسادات اور تقسیم سے زیادہ فساد اور تقسیم کے ذمہ دار انسانوں پرچوٹ کی ہے۔اس مذہبی ا نتہا پسندی اور عدم رواداری پرچوٹ کی ہے جس نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنایا اور انسانوں کا خون ناحق بہایا۔”ٹھنڈا گوشت“ کہانی میں منٹو نے انسانی بہیمیت کی ایک انوکھی تصویر کشی کی ہے اور ایسی تصویر کشی منٹو ہی کرسکتے تھے:
”کتنی سندر تھی۔۔۔۔میں اسے بھی مار ڈالتا پر میں نے کہا”نہیں،ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز
مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پتا پھینکا۔۔۔لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔۔“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”وہ۔۔۔۔۔وہ مری ہوئی لاش تھی۔۔۔بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس طرح ایشر شنگھ ٹھنڈا گوشت کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے ارتقاب میں نامرد ہوجاتا ہے۔پھر اپنی بیسوا سے قتل بھی ہوجاتا ہے۔منٹو نے تو صرف ایک ایشر سنگھ کی کہانی بیان کی ہے اور منٹو کا ایشر سنگھ تو اقبال جرم بھی کرتا ہے،لیکن آج بھارت میں ہر طرف ایشر سنگھ ملیں گے، جو اقبال جرم بھی نہیں کرتے بلکہ الٹا اپنے گھناؤنے افعال پر فخر بھی کرتے ہیں۔منٹو کے وقت میں قتل ہونے والے کو تو پتا تھا کہ کس لیے قتل ہورہا ہے اور لوگ کیوں قتل ہورہا ہے،لیکن آج شاید ہم اس دور میں داخل ہوچکے ہیں جس کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی گئی ہے کہ نہ قاتل کو پتا ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور نہ قتل ہونے والے کو پتا ہوگا کہ اس کا قتل کیوں ہوا۔اسی لیے تو اکثر کہا جاتا ہے کہ آج منٹو کو دوسرے جنم میں آنا ہوگا اوراگر آبھی گیا تو اس کا رویہ کیا ہوگا۔یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔
منٹو کے وقت میں بھی عورت کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں۔عصمتیں لٹیں، عورتوں کا قتل ہوا لیکن آج کی طرح ان مظالم کے ویڈیو نہیں بنائے گئے۔آج مظالم اور انسانی درندگی نے نئی نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں۔فسادات اور تقسیم پر منٹو کی ایک اور کہانی”کھول دو“ قابل ذکر ہے۔بوڑھا سراج الدین بٹوارے کے دوران میں اپنی بیٹی سکینہ کو کھودیتا ہے اور اس کے ہوش وہواس اڑ جاتے ہیں۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر سکینہ گئی کہاں۔سراج الدین سکینہ کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن ناکام ہوجاتا ہے اور بالآخر رضاکاروں سے اسے ڈھوندنے کے لیے کہتا ہے۔رضاکار تو سکینہ کو ڈھونڈتے ہیں لیکن اس کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔یہاں منٹو نے دکھایا ہے کہ کس طرح فسادات کے دوران انسان کی انسانیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ ایک درندہ بن جاتا ہے۔منٹو نے اس درندگی اور سکینہ کے باپ کی بیچارگی کی عکاسی آخر میں کچھ اس طرح کی ہے:
”ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا:”کھڑکی کھول دو۔۔“
مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔
بے جان ہا تھوں نے ازار بند کھولا۔اور شلوار نیچے سرکادی۔
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا: ”زندہ ہے۔۔میری بیٹی زندہ ہے۔“
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرک ہوچکا تھا۔“
یہ جملے پڑھ کر نہ صرف ڈاکٹر بلکہ ساری ا نسانیت پسینے میں غرق ہوجاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح گجرات اور مظفر نگر میں بھی انسانیت پسینے میں غرق ہوگئی،بلکہ پوری طرح انسانیت کا قتل ہوگیا جب درندہ صفت انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، عورتوں کی عصمتیں لوٹیں۔ ”کھول دو“ کے رضاکاروں نے تو عصمت دری کے بعد سکینہ کو پھر بھی زندہ چھوڑا تھا لیکن یہاں تو عصمت دری کے بعد زندہ جلادیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے اور کچھ کو زندہ جلادیا گیا۔یہ ایسے مناظر تھے کہ جس کی منظر کشی کرنے میں شاید منٹو کا قلم بھی کانپ اُٹھتا۔ پھر بھی اس وقت کو منٹو کی ضرورت ہے جو اس انسانیت سوز واقعہ کو اپنی کہانی کا موضوع بنائے۔منٹو کے بھارت اور پاکستان میں آج ہزاروں سکینائیں ہیں لیکن بس صرف نہیں ہے تو اُن کے درد و کسک کی کہانی لکھنے والا منٹو۔۔
منٹو نے مذہب کا مذاق کبھی نہیں اڑایا لیکن ظاہر پرست مولویوں اور مذہبی ٹھیکیداروں سے اُن کو بہت چڑ تھی۔جس طرح آج مذہب کے ٹھیکیدار معصوم لوگوں کا استحصال کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر انتہاپسندی پھیلارہے ہیں ویسے ہی منٹو کے عہد میں بھی تھا، لیکن اُس وقت منٹو جیسا نابغہ اس انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں تھا لیکن آج کوئی نہیں۔ہاں کچھ کہانی کار تو ہیں لیکن یہ لوگ مذہبی انتہاپسندی مذمت کرنے سے زیادہ مذہب کی توہین کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔انہیں انسانیت سے زیادہ لگاؤ اپنی کتابوں کی فروخت سے اور پیسہ کمانے سے ہے۔اسی لیے یہ لوگ منٹو کا مقابلہ تو دور منٹوکے قد کے سامنے ٹک بھی نہیں سکتے۔
منٹو نے جہاں اپنی کہانیوں میں انسان کی بہیمیت اور درندگی کا چہرہ دکھایا ہے،وہیں انہوں نے انسان کی ایک دوسرے کے ساتھ الفت و محبت کو بھی دکھایا ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی مذہب کی ظاہر پرستی اور مذہبی انتہا پسندی پر بھی تیکھا وار کیا ہے۔”موذیل“ منٹو کا ایسا ہی ایک افسانہ ہے جس میں انہوں نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی محبت کو دکھایا ہے وہیں مذہب کے نام پر انسان کس طرح انسان کے خون کا پیاسا ہوجاتا ہے اس حقیقت کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔افسانے میں منٹو کے خیالات کی عکاسی ’موذیل‘ کردار سے ہوئی ہے جو ترلوچن سے تو بہت محبت کرتی ہے لیکن اس کی ظاہری مذ ہب پرستی سے بہت نفرت کرتی ہے۔شاید یہ نفرت اس وجہ سے ہے کیوں کہ موذیل نے مذہب یا مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے تقسیم و فسادات کے دوران لوگوں کو مرتے مارتے دیکھا ہے۔اس نے بے قصوروں اور معصوموں کا خون بہتے دیکھا ہے۔اور آج تو ہزاروں موذیل جیسے کردار ہمارے آس پاس ہیں جو اپنے دوستوں کے لیے جان دیتی ہیں اور جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھتے ہوئے دیکھاہے۔ شاید ان موذیلوں کو اپنی کہانیاں سنانے کے لیے کسی منٹو کا انتظار ہے اور یہ بوجھ وہ کئی دہائیوں سے اپنے سینے پر لیے بیٹھی ہیں۔یہ موذیلیں بغداد، بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت، برما ہر جگہ موجود ہیں۔
”موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا۔تم شیو کرالو اور اپنے سرکے بال کھلے چھوڑو،تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔ تم خوبصورت ہو۔“
موذیل فساد کے دوران میں کرپال کور کو بچالیتی ہے لیکن خود موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔مرتے مرتے اس کے یہ جملے اس کی مذہب بیزاری کو سامنے لاتے ہیں:
”موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔۔’لے جاؤ اس کو۔۔۔اپنے اس مذہب کو۔۔۔۔“
موذیل کو دراصل مذہب کے ظاہری نشانات سے نفرت ہے۔اسے ظاہر پرستی سے نفرت ہے اور ترلوچن کے بالوں اور پگڑی سے نفرت ہے نہ کہ ترلوچن سے۔
مذہب کے نام پر آج پہلے سے زیادہ خون خرابہ ہورہا ہے،لیکن آج کا انسان اب اس خون خرابے کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ اسے اب یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اس کے آس پاس کتنے لوگ مررہے ہیں۔شاید وہ بے حس ہوگیا ہے۔آئے دن بچے،عورتوں، بزرگوں کا قتل ہورہا ہے۔داعش، بوکوحرام، تحریک طالبان پاکستان، ہندتوا جیسی تنظیموں نے مذہب کی اپنی اپنی خودساختہ تشریحیں اور تعبیریں پیش کی ہیں اور ان تشریحوں کے مطابق مخالف فرقے یا اختلاف رائے والے لوگوں کی سزا صرف موت ہوسکتی ہے۔یہ تنظیمیں مکالمہ کرنے میں یقین نہیں رکھتیں اور نہ ہی ان کے پاس مکالمہ کرنے کے لیے کچھ ہے۔ان کاکام صرف قتل و غارت گری ہے۔ انسان ابتدا ہی سے مذہب کواپنے مفاد اور معصوم عوام کے استحصال کے لیے استعمال کرتا آیا ہے اور یہ استحصال برابرآج تک جاری ہے لیکن آج نہیں ہے تو وہ ہے منٹو جو مذہب کے اس بھیانک استعمال کے خلاف اپنا قلم چلاتا۔